دولت حسن کی بھی ہے کیا لوٹ
دولت حسن کی بھی ہے کیا لوٹ
آنکھوں کو پڑ گئی ہے لوٹا لوٹ
چل رہی ہے دلا ہوائے بہار
لالہ پھولا ہے داغ سودا لوٹ
سامنے تیرے جو پڑے اے ترک
اس میں کعبہ ہو یا کلیسا لوٹ
چار دن ہے بہار اے بلبل
زر گل کا ہزار توڑا لوٹ
صف مژگاں سے کہہ رہی ہے وہ چشم
دل ملیں جتنے بے تحاشا لوٹ
صرف اللہ مال دنیا کر
مرد ہے کچھ تو بہر عقبیٰ لوٹ
صاف دل ہو تو جلوہ گر ہو یار
آئنہ ہو تو ہو تماشا لوٹ
نعمت خوان حسن جو مل جائے
یہ سمجھ لے ہے من و سلویٰ لوٹ
گوہر آبلہ ہوئے تو چلے
لیں گے دیوانو خار صحرا لوٹ
جانتے ہیں کہ فوج جنگی سے
نہیں سردار پھیر لیتا لوٹ
کام مردوں کا ہے یہ اے آتشؔ
رکھتی ہے جان کا بھی کھٹکا لوٹ
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |