دو جہاں کو نگہ عجز سے اکثر دیکھا
دو جہاں کو نگہ عجز سے اکثر دیکھا
ہم نے امید کو حرماں کے برابر دیکھا
طالع بے ہنری اوج فلک پر دیکھا
جس جگہ وہم نہ پہونچا تھا وہاں سر دیکھا
اس برے وقت میں بھی لاکھ سے اچھا ہوں میں
میں نے معشوق کے پردہ میں مقدر دیکھا
کیا کہوں قصۂ دلچسپیٔ حال ابتر
دوستوں نے مجھے اغیار سے بڑھ کر دیکھا
اے اجل خوب بتایا وہ قیامت ہوگی
جس کے آغوش میں تو نے دل مضطر دیکھا
بیکس ہائے تمنا نے سلایا ہے مجھے
پھر نہ جاگوں گا اگر خواب میں محشر دیکھا
یار جب پردہ نشیں ہے تو کہاں کا پردہ
پردہ یہ ہے کہ اسے پردہ سے باہر دیکھا
پاؤں پھیلائے ہیں بے جا ہوس دنیا نے
ہم نے دنیا ہی کو لپٹا ہوا بستر دیکھا
اس کھلے ظلم نے سب کھول دیے ہیں پردے
ہم نے دیکھا تجھے سو بار ستم گر دیکھا
ٹپکا پڑتا ہے رگ شوق سے خون حسرت
کیا وفاؔ دست قضا میں کوئی نشتر دیکھا
This work is in the public domain in the United States but it may not be in other jurisdictions. See Copyright.
| |