دو شہزادے جیل خانے میں

دو شہزادے جیل خانے میں
by حسن نظامی
319527دو شہزادے جیل خانے میںحسن نظامی

میرزا تیغ جمال کی عمر اب اسی برس کی ہے۔ غدر ۱۸۵۷ء میں وہ انیس برس کے گبرو جوان تھے اور ان کو غدر سے پہلے کی باتیں ایسی یاد ہیں جیسے ابھی کل کی گذری ہوئی حالت کو بیان کیا کرتے ہیں۔

تیغ جمال میرزا فخر و ولی عہد دوم کے لڑکے ہیں۔ میرزا دارا بخت بہادر شاہ کے پہلے ولی عہد تھے، لیکن جب ان کا انتقال ہوگیا تو میرزا فخر و ولی عہد قرار پائے۔ میرزا فخر و بہت دین دار اور متقی شہزادے تھے۔ اگر دہلی کا تخت باقی رہتا تو یہ ہندوستان کے بہت ہی نیک بادشاہ مانے جاتے، مگر جوانی کے دیوانہ پن میں بڑے بڑے پارساؤں کا قدم ڈگمگا جاتا ہے۔ میرزا فخر و تو پھر بادشاہ ہند کے بیٹے اور ولی عہد تھے جن کو شباب کی آنکھ مچولیاں کرنے میں کسی کا خوف و لحاظ نہ تھا۔ اس کے علاوہ اس زمانہ میں لال قلعہ خانگی بد چلنی میں اس قدر بدنام تھا جس کی کچھ حد نہیں۔ پھر اگر مرزا فخرو سے کوئی غلطی ہوگئی اور وہ جوش شباب کی مستی کو روک نہ سکے تو کچھ زیادہ گرفت کے قابل نہیں سمجھا جائے گا۔ میرزا تیغ جمال اسی پہلی اور خفیہ مگر نہایت دلچسپ غلطی کا نتیجہ ہیں۔ ان کے بعد ان کی والدہ سے پھر کوئی اولاد نہیں ہوئی اور میرزا فخر و کی دوسری اولاد میرزا فرخندہ جمال وغیرہ ان کی نکاحتہ بیوی سے ہے اور یہی وجہ ہے کہ برٹش گورنمنٹ نے بڑی پنشن کا حقدار میرزا فرخندہ جمال کو قرار دیا، جن کو ڈیڑھ سو روپیہ ماہوار ملتا ہے اور تیغ جمال کو پانچ روپے پنشن بھی نہ ملی۔ تیغ جمال عجب زندہ دل اور خوش طبع شہزادے ہیں۔ ان کو پنشن نہ ملنے اور شہزادہ مشہور نہ ہونے کا ذرا بھی غم نہیں اور وہ اپنے والدین کے خفیہ تعلقات کو اس لطف سے بیان کرتے ہیں گویا ان کا اس عشق بازی کے نتیجہ سے کچھ ذاتی واسطہ ہی نہیں ہے، حالانکہ وہ اس چھپی ہوئی اور لال قلعہ کی بیگمات میں نہایت مبالغہ آمیز کیفیات کے ساتھ مشہور عشق بازی کا بولتا ہوا حاصل مقصد ہیں۔ تیغ جمال کہتے ہیں، ’’اماں جان کی عمر سولہ برس کی تھی اور ابا جان تیرہ برس سے کچھ مہینے زیادہ کا سن رکھتے تھے، جب یہ عشق بازی شروع ہوئی تھی۔‘‘ پوچھا جائے کہ جناب تیرہ برس کا بچہ سولہ برس کی عورت سے کیونکر محبت کر سکتا ہے تو سنجیدہ صورت بنا کر کہہ دیتے ہیں، ’’جس طرح اسی برس کا بڈھا سولہ برس کی کی سن کی عورت سے محبت کا دم بھرا کرتا ہے۔ ہم مغلوں میں بچے بہت جلدی جوان ہو جاتے تھے۔ لڑکیاں تو بعض اوقات دس اور گیارہ سال کی عمر میں نمودِ شباب کا اعلان کر دیتی تھیں اور لڑکے بھی بارہ تیرہ برس کے سن میں عشق و محبت اور اس کے نتائج پر غور و عمل کرنے لگتے تھے۔ میں خود بارہ برس کا تھا تو آج کل کے اٹھارہ سالہ جوانوں سے زیادہ جذبات اپنے اندر پاتا تھا۔‘‘ تیغ جمال نے کہا، ’’اماں جان ایک کہار کی لڑکی تھیں۔ نانی اماں کو محل کی کہاریوں میں سب سے دیدار و کہاری کہا جاتا تھا، جو حضرت اکبر شاہ ثانی کی نظر کردہ تھیں، مگر جو حسن اور جو غمزدہ ہائے جان ستان اماں جان رکھتی تھیں، وہ نانی اماں کے خواب و خیال میں بھی نہ گذرے ہوں گے۔ ہونے کو تو اماں جان بھی محل شاہی کی نوکر تھیں، مگر ان کا قیام اکثر خانم کے بازار میں رہتا تھا، جہاں نانی اماں، نانا ابا اور ہماری ننھیال کے سب کہار رہتے تھے۔ ایک دن کا ذکر ہے کہ ابا جان ڈیوڑھی کے داروغہ کے ساتھ اپنی کمان درست کرانے خانم کے بازار چلے گئے۔ وہاں انہوں نے کہیں اماں جان کو دیکھ لیا اور اسی وقت ہزار جان سے عاشق ہوگئے۔ گھر آئے تو اٹواٹی کھٹواٹی لے کر پڑگئے اور رونا شروع کیا۔ ہر چند لوگ پوچھتے تھے کہ میاں مزاج کیسا ہے۔ دادی اماں کہتی تھیں بیٹا کسی نے کچھ کہا ہو، سنا ہو، کوئی بات مرضی کے خلاف ہوئی ہو تو مجھے بتاؤ۔ میں اس کا تدارک کروں، مگر یہ تو عشق کے ستائے ہوئے تھے، ایک بات منہ سے نہ کہتے تھے اور چپ چاپ پڑے روتے تھے۔ آخر رفتہ رفتہ یہ بات کھل گئی اور محل میں اس کے مذاق اور چرچے ہونے لگے۔ بیگمات ابا جان کو چھیڑنے لگیں اور ہمسن لڑکوں میں بھی اشارہ بازیاں اور آوازہ کشیاں شروع ہوگئیں۔ رفتہ رفتہ نانی اماں کو خبر ہوئی تو انہوں نے اماں جان کو محل میں بلا لیا اور دادی اماں کی ڈیوڑھی پر حاضری لکھوا دی، مگر ابا جان کی حالت یہ تھی کہ باوجود اس سر انجام خاص کے وہ اماں جان سے بات کرتے ہوئے شرماتے تھے۔ اماں جان کبھی اکیلے مل جاتیں تو ہنس کر ابا جان کا ہاتھ پکڑ لیتیں اور کہتیں صاحب عالم آپ غمگین کیوں رہتے ہیں، تو ابا جان ہاتھ چھڑا کر بھاگ جاتے اور اماں جان کی طرف مخاطب نہ ہوتے۔‘‘ بظاہر یہ حالات تھے، اندر کی خبر نہیں کیا ہوا اور میرزا تیغ جمال کیوں کر پیدا ہوگئے۔ میرزا تیغ جمال کا بیان ہے کہ ان کی پیدائش کے وقت اماں سترہ برس کی اور ابا چودہ ساڑھے چودہ سال کے تھے۔ ’’دادی اماں نے بہت چاہا کہ اب اس کہاری کے ہاں میرا پوتا پیدا ہوگیا ہے، یہ محل میں بیگمات کی طرح رہے، مگر نانی اماں نے اس کو قبول نہ کیا اور اماں جان پھر وہیں خانم کے بازار میں رہنے لگیں۔ میرزا تیغ جمال چھ برس کے ہوئے تب وہ لال قلعہ میں اپنے باپ کے پاس آکر رہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’بھائی ہم کہار ہیں ننھیال کی طرف سے اور بادشاہ ہیں ددھیال کے رشتہ سے۔ وہاں بھی انسانوں کا بوجھ اٹھاتے تھے اور یہاں بھی۔ ہماری برابری کون اس دنیا میں کر سکتا ہے کہ ہماری زندگی خدا کے بندوں کے بوجھ اٹھانے اور خدمت خلق کرنے میں بسر ہوتی ہے۔‘‘ غدر کے بیس برس بعدمیرزا تیغ جمال کہتے ہیں، ’’غدر کے ایام میں اپنی والدہ کے ساتھ دہلی سے بھاگ کر ہم شاہجہاں پور چلے گئے تھے، جہاں ہماری ننھیال کا قدیمی کنبہ رہتا تھا۔ قلعہ کی افرا تفری دیکھ کر میں نے شہزادوں کا ساتھ چھوڑ دیا اور اماں کے پاس چلا گیا، کیونکہ شہزادوں کی زندگی اس زمانہ میں دوکوڑی کے برابر بھی نہ تھی۔ مجھ کو جان کی خیر اسی میں نظر آئی کہ کہاروں میں جاکر رہوں اور کہار کہلاؤں۔‘‘ وہ کہتے ہیں کہ ’’اماں جان کے پاس اتنی دولت تھی کہ ہم نے شاہجہاں پور میں جاکر ایک دکان کر لی اور بیس بر س بڑے عیش و آرام سے گزرے۔ میں حلوائی کی دکان کرتا تھا۔ ایک دن کسی پٹھان نے مٹھائی کی خرابی بیان کر کے مجھ کو گالی دی۔ میں شاہی خون کا مغل۔ گالی کی برداشت کیوں کر کرتا۔ لوہے کا کھپچہ اٹھا کر پٹھان صاحب کے مارا جس سے وہ چکرا کر گر پڑے اور پانچ منٹ کے اندر تڑپ کر مر گئے۔ میں پکڑا گیا اور مدتوں مقدمہ اور حوالات کا جھمیلہ برداشت کر کے چودہ برس کی قید کا سزا وار بنا۔‘‘ بیلی کا جیل خانہ’’پہلے دن جب میں جیل خانہ کے اندر داخل ہوا تو مجھے ذرا بھی پریشانی اور غم اپنے قید ہونے کا نہ تھا، کیونکہ شرو ع سے ہر وقت خوش اور بے فکر رہنے کی عادت تھی اور غم کبھی میرے پاس نہ آنے پاتا تھا۔ قید کا حکم سننے کے بعد بھی خوش رہا اور جب اماں جان ملنے آئیں اور رونے لگیں تو میں نے ہنس کر کہا، ’’اے بی! تم روتی کیوں ہو۔ دکان میں اتنی مٹھائی چھوڑ کر آیا ہوں جو کئی مہینے تک کھاتی رہوگی۔‘‘ اماں جا ن بولیں، ’’ بس تجھ کو ہر وقت مسخرہ پن سوجھتا ہے۔ میرا کون وارث ہے جو چودہ برس تک خبر گیری کرے گا۔ میں نے تو تیرے دم کی بدولت اس پردیس میں بیس برس گذرا دیے، ورنہ دلی کی سی اس گاؤں میں بات کہاں۔‘‘ میں نے جواب دیا، ’’جب ابا جان کا سارا خاندان تباہ ہوگیا اور بڑی حویلیاں خاک میں مل گئیں اور ہمارے شہزادے بھائی تخت سے تختہ پر آگئے تو ہم کس گنتی میں ہیں۔ چودہ سال کی بات ہی کیا ہے۔ پلک مارتے گذر جائیں گے اور میں تمہارے پاس آجاؤں گا۔ ذرا میری بیوی کا خیال رکھنا۔ اس کا دل تمہاری بد مزاجی سے میلا نہ ہو۔ تم ملکہ کا سامزاج رکھتی ہو اور وہ بچاری محض ایک کہاری ہے۔ مہربانی کر کے اس پر شاہانہ مزاج ظاہر نہ کرنا۔‘‘ اماں جان یہ گفتگو سن کر ہنسنے لگیں اور یہ کہتی ہوئی چلی گئیں، ’’خبر نہیں تو اتنا بےغیرت اور ڈھیٹ کیوں ہے۔ خیر جا خدا کے سپرد کیا۔‘‘ ’’جس وقت جیل کے کپڑے پہننے کو دیے گئے تو میں نے مذاق سے کہا، ’’اس جانگیہ کو رہنے دیجئے۔ مجھ کو اپنا پائجامہ اس سے زیادہ پیارا ہے۔‘‘ یہ گفتگوبر قنداز جیل کو کب گوارا ہوسکتی تھی۔ اس نے دو تین ڈنڈے رسید کیے اور کہا، ’’یہ تمہاری نانی اماں کا گھر نہیں ہے، جو دل لگی کی باتیں کرتے ہو۔‘‘ میں نے ڈنڈے کھا کر بھی ہنسی کا جواب دیا کہ’’بھائی نانی اماں کا گھر خانم بازار میں تھا اور وہ محلہ کے ساتھ کھود کر برابر کر دیا گیا۔ دادی اماں کا گھرلال قلعہ میں تھا۔ اس میں اب گورے رہتے ہیں۔ میں تو اس کو سسرال کا گھر سمجھ کر آیا تھا۔ وہاں جوتیاں تو مارا کرتے ہیں، ڈنڈے کبھی نہیں سنے۔ تم میرے سالے ہو یا سسرے۔‘‘ ’’برقنداز آگ بگولا ہو گیا اور اس نے دو تین آدمیوں کی امداد سے مجھ کو اتنا مارا کہ میں بے ہوش ہو کر گر پڑا۔ ہوش آیا تو ایک کوٹھری کے اندر لیٹا تھا اور بر قند از سامنے کھڑا تھا۔ میں نے کہا، ’’جناب مارنے کا شگون ہو چکا۔ اب اپنی بہن کو یہاں لائیے جو مجھ کو کھانا دے اور ہلدی چونہ چوٹ پر لگائے۔‘‘ برقنداز کو بے اختیار ہنسی آگئی اور اس نے کہا، ’’تم آدمی ہو یا پتھر۔ کسی بات کا تم پراثر نہیں ہوتا۔ میاں یہ جیل خانہ ہے۔ یہاں یہ خوش مذاقیاں قائم نہیں رہ سکتیں۔ تم کو چودہ برس گذارنے ہیں۔ سیدھے ہوکر رہو گے تو خیر ہے ورنہ پٹتے پٹتے چودہ دن کے اندر مر جاؤ گے۔‘‘ میں نے کہا، ’’مرنے کے بعد بھی آدمی کو قبر کے جیل خانہ میں جانا پڑتا ہے۔ مگر مجھ کو مردہ پر بڑا غصہ آتا ہے کہ وہ کیوں چپ چاپ کفن اوڑھ کر قبر میں چلا جاتا ہے۔ میں تو مرنے کے بعد بھی خاموش نہ رہوں گا اور جو شخص میرے پاس رہے گا، اس کو بھی ایسا بنا دوں گا کہ اگر وہ مرے تو چپکانہ رہے بلکہ ہنستا بولتا قبرمیں جائے۔ اگر تم کو شک ہوتو تم ابھی مر کر دیکھ لو یا کہو تو میں مار ڈالوں۔ برقنداز نے سمجھا یہ کوئی پاگل ہے اور ہنستا ہوا باہر چلا گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد مجھ کو چکی خانہ میں لے گئے جہاں ایک چکی پر دو آدمی کھڑے ہو کر آٹا پیستے ہیں۔ میری چکی کا شریک ایک بڈھا آدمی تھا اور شاید نیا نیا قید ہو کر آیا تھا۔ اس واسطے زار و قطار رو رہا تھا۔ میں نے پہلے تو جھک کر ایک فرشی سلام اس کو کیا اور اس کے بعد بولا، ’’نانا! آپ روتے کیوں ہیں۔ فدوی ایک دو غلی قسم کا آدمی ہے۔ آدھا تیموری شہزادہ اور آدھا کہار اور جب آپ کے ہمراہ چکی کا کام کرے گا تو تیسری شاخ میرے اندر اور لگ جائے گی اور وہ یہ کہ پاؤ بسوریہ۔‘‘ بڑے میاں نے میری بات پر ذرا توجہ نہ کی۔ ان کو اپنی حالت کو اتنا سخت صدمہ تھا کہ آخر مجھ پر بھی اس کا اثر پڑا اور میں نے کہا، ’’آپ بیٹھ جائیے۔ میں اکیلا چکی چلا لوں گا اور آپ کے حصے کا بھی پیس ڈالوں گا۔‘‘ ان حضرت نے اس کابھی جواب نہ دیا، کھڑے روتے رہے۔ لیکن جب برقنداز نےان کی سفید کتری ہوئی داڑھی پکڑ کر ایک طمانچہ مارا اور کہا، ’’بس رو چکا۔ کام کر‘‘ تو بچارے نے آسمان کو دیکھا اور بے اختیار چکی چلانے لگے۔ ان کی اس حالت کا مجھ پر اتنا اثر ہو ا کہ اپنی ساری شوخیاں بھول گیا اور ان کے ساتھ چپ چاپ چکی چلانے لگا۔ کئی روز یہی نوبت رہی۔ میں ہر چند ان سے بات کرتا تھا مگر وہ جواب نہ دیتے تھے اور روتے رہتے تھے۔ آٹھ دن کے بعد انہوں نے اپنی سرگذشت سنائی۔‘‘ شاہ عالم کے پڑپوتے کی داستانمیں میرزا جہانگیر کا بیٹا ہوں جو اکبر ثانی بادشاہ دہلی کے بیٹے، شاہ عالم بادشاہ کے پوتے اور بہادر شاہ کے بھائی تھے۔ جب میرے والد میرزا جہانگیر نے سیٹین صاحب انگریز کے گولی ماری تو اس قصور کے عوض قید ہو کر الہ آباد بھیجے گئے۔ الہ آباد میں انہوں نے ایک عقد کر لیا تھا۔ میری والدہ نظر بندی کے افسر پہرہ دار کی لڑکی تھیں۔ نکاح ہونے کے بعد سے لے کر میرے پیدا ہونے تک والد نے میرے نانا اور والدہ کو اتنی دولت دی کہ سات پیڑی کو کفایت کرتی۔ میری دادی اپنے بیٹے کو دہلی سے برابر جواہرات اور اشرفیاں بھیجا کرتی تھیں اور ان کے پاس دولت کی کچھ کمی نہ تھی۔ میں نے والد کے انتقال کے بعد نانا کے پاس پرورش پائی اور ایسے ناز و نعمت سے پلا کہ شاید دنیا میں کوئی بچہ میری طرح آرام سے نہ ہوگا۔ ہوشیار ہوا تو ہر قسم کی تعلیم مجھ کو دلائی گئی۔ عربی فارسی کی تکمیل کے بعد میں نے کپڑے کی دکان کر لی۔ دن بھر دکان داری، رات کو خدا کی مہربانی سے تھوڑی عبادت و بیداری میں عمر بسر ہوتی تھی۔ چار بچے خدا نے دیے۔ بوڑھی والدہ تک زندہ ہیں۔ ایک روز ایک تھا نہ دار صاحب کچھ کپڑا خرید نے آئے۔ میں نے عادت کے موافق ایک بات قیمت کی کہہ دی۔ انہوں نے حجت شروع کی تو میں نے کہا، ’’جناب! میری دکان پر جھوٹ نہیں بولا جاتا۔‘‘ اس پروہ بدزبان بگڑ کر بولا، ’’بڑا ایماندار بنتا ہے۔ تجھ جیسے ٹھگ میں نے بہت جیل خانہ میں بھجوا دیے ہیں۔‘‘ میں نے کہا، ’’تھانہ دار صاحب زبا ن سنبھال کر بولیے۔ شریفوں کی گفتگو ایسی نہیں ہوا کرتی۔‘‘ اس پر اس کو اتنا غصہ آیا کہ فوراً ایک تھپڑ میرے کلہ پر مارا۔ مجھ میں بھی مغلئی خون تھا۔ جواب میں دو تھپڑ میں نے بھی ماردیے۔ سپاہیوں نے مجھ کو پکڑ لیا اور تھانہ لے گئے۔ وہاں تھانہ دار نے مجھ کو حوالات میں بند کرا کے میرے گھر کی تلاشی کرائی اور چوری کا کپڑا بر آمد کرا کے مقدمہ قائم کر دیا۔ ہر چند میں نے اپنی بے گناہی ظاہر کی اور حکام سے اصلی واقعات کہے، مگر کسی نے نہ سنا اور چھ ماہ قید سخت کا حکم دے دیا۔ میری بیوی اور ضعیف والدہ نے گھر کا سارا اثاثہ فروخت کر کے مقدمہ میں خرچ کر دیا اور وہ بچاریاں مفلس ہو گئیں، لیکن نتیجہ خاک نہ نکلا اور یہاں جیل خانہ میں آنے کی نوبت آگئی۔ سب سے زیادہ مجھے والدہ کا صدمہ ہے جو مجھ سے حوالات میں ملنے آئی تھیں اور میری یہ حالت دیکھ کر آہ کا نعرہ مار کر گر پڑیں اور روح پرواز کر گئی۔ اس وقت میرا بڑا لڑکا، جس کی عمر بارہ سال کی ہے، ان کے ہمراہ تھا۔ وہ گھبرا گیا اور مجھ سے کہنے لگا، ’’ابا! دادی جان مرگئیں۔‘‘ میں چاہتا تھا کہ اماں جان کو جھک کر دیکھوں، مگر ظالم داروغہ کے سپاہی مارکر مجھ کو جیل خانہ میں لے آئے اور والدہ کی لاش وہیں پڑی رہ گئی۔ چلتے وقت میں نے لڑکے کو یہ کہتے سنا، ’’ابا جان! ہم کہاں جائیں۔ اب یہ سپاہی ہم کو بھی ماریں گے۔ دادی جان کو کیونکر گھر لے جائیں۔ تم ذرا ٹھہرو ابا جی ابا جی۔ میں اس غم میں رات دن گھلا جاتا ہوں۔ خبر نہیں بیوی بچوں پر کیا گذرتی ہوگی اور ظالم تھا نہ دار نے ان پر کیسی کیسی زیادتیاں کی ہوں گی۔‘‘ میرزا تیغ جمال نے یہ سن کر ایک قہقہہ لگایا اور کہا، ’’یہ دنیا بھی عجب مقام ہے۔ میری تمہاری ایک سی حالت ہے اور ایک ہی نسل کا تم میں مجھ میں خون ہے۔ مگر تم غم کے تحت الثریٰ میں پڑے ہو اور میں خوشی کے آسمان میں زندگی بسرکرتا ہوں۔ واہ واہ! ایک صورت کا آدمی، ایک کھانا، ایک پہننا، ایک طرح سونا، ایک طرح جاگنا، مگرکسی کو عادت ترسنے تڑپنے کودی، کسی کو ترسانے تڑپانے والا بنایا۔ کوئی ہر وقت مغموم و رنجیدہ رہتا ہے، کوئی صبح سے شام اور شام سے صبح تک سوائے ہنسنے ہنسانے کے کسی غم کے پاس نہیں پھٹکتا۔ بھائی صاحب! قید تم بھی کاٹوگے اور میں بھی کاٹوں گا، تم کو یہ زندگی دو بھر اور اجیرن معلوم ہوگی اور میں اس کو ذرا بھی خاطر نہ لاؤں گا اور مرتے دم تک یوں ہی ہشاش بشاش رہوں گا۔‘‘


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.