دو عالم کے آفات سے دور کر دے

دو عالم کے آفات سے دور کر دے
by سہا مجددی

دو عالم کے آفات سے دور کر دے
اک ایسی نظر چشم مخمور کر دے

نصیب محبت ہے اب وہ تمنا
انہیں جو تغافل سے معذور کر دے

ترے قرب کی ہائے یہ شان کیا ہے
جو ادراک ہستی سے بھی دور کر دے

کوئی کس طرح پائے اس ہم نشیں کو
جسے جستجو منزلوں دور کر دے

جمال اس کو کہئے کہ پرتو ہی جس کا
حجابوں کو نور علیٰ نور کر دے

نہ اب ہوش کا بس نہ طاقت جنوں میں
کہ حال طبیعت بدستور کر دے

سہاؔ جلوۂ شوخ شاداب ان کا
شباب گلستاں کو بے نور کر دے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse