دکھاتے ہیں ادا کچھ بھی تو آفت آ ہی جاتی ہے
دکھاتے ہیں ادا کچھ بھی تو آفت آ ہی جاتی ہے
سنبھل کر لاکھ چلتے ہیں قیامت آ ہی جاتی ہے
محبت میں ہیں صبر و شکر کے ہر چند ہم قائل
مگر کچھ کچھ کبھی لب پر شکایت آ ہی جاتی ہے
جو سچ پوچھو تو ہیں عاشق بھی پیرو نازنینوں کے
بدن میں ناتوانی سے نزاکت آ ہی جاتی ہے
مجاز اک پردۂ ادراک ہے تو چشم بینا کو
کسی صورت نظر شکل حقیقت آ ہی جاتی ہے
نہیں جذب دل عاشق سے ہے معشوق کو چارہ
اگر بے درد بھی ہو تو محبت آ ہی جاتی ہے
بتان سیمتن کے وصل سے ہم فیض پاتے ہیں
وہ آتے ہیں تو اپنے گھر میں دولت آ ہی جاتی ہے
ترے اشعار رنگیں سے بھلا فرحت نہ ہو احقرؔ
کہ ان پھولوں سے خوشبوئے فصاحت آ ہی جاتی ہے
This work is in the public domain in the United States because it was first published outside the United States (and not published in the U.S. within 30 days), and it was first published before 1989 without complying with U.S. copyright formalities (renewal and/or copyright notice) and it was in the public domain in its home country on the URAA date (January 1, 1996 for most countries). |