دھواں کلیجے سے میرے نکلا جلا جو دل بس کہ رشک کھا کر

دھواں کلیجے سے میرے نکلا جلا جو دل بس کہ رشک کھا کر
by نظیر اکبر آبادی

دھواں کلیجے سے میرے نکلا جلا جو دل بس کہ رشک کھا کر
وہ رشک یہ تھا کہ غیر سے ٹک ہنسا تھا چنچل مسی لگا کر

فقط جو چتون پہ غور کیجے تو وہ بھی وہ سحر ہے کہ جس کا
کرشمہ بندہ غلام غمزہ دغائیں نوکر فریب چاکر

خرام کی ہے وہ طرز یارو کہ جس میں نکلیں کئی ادائیں
قدم جو رکھنا تو تن کے رکھنا جو پھر اٹھانا تو ڈگمگا کر

لٹک میں بندوں کی دل جو آوے تو خیر بندے ہی اس کو لے لیں
وگرنہ آوے تو پھر نہ چھوڑے ادھر سے بالا جھمک دکھا کر

مجال کیا ہے جو دو بدو ہو نظر سے کوئی نظر لڑاوے
مگر کسی نے جو اس کو دیکھا تو سو خرابی سے چھپ چھپا کر

سنے کسی کے نہ درد دل کو وگر سنے تو جھڑک کے اس کو
یہ صاف کہہ دے تو کیا بلا ہے جو سر پھراتا ہے ناحق آ کر

نظیرؔ وہ بت ہے دشمن جاں نہ ملیو اس سے تو دیکھ ہرگز
وگر ملا تو خدا ہے حافظ بچے ہیں ہم بھی خدا خدا کر

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse