دھواں (افسانہ)

دھواں (1941)
by سعادت حسن منٹو
325197دھواں1941سعادت حسن منٹو

وہ جب اسکول کی طرف روانہ ہوا تو اس نے راستے میں ایک قصائی دیکھا،جس کے سر پر ایک بہت بڑا ٹوکرا تھا۔ اس ٹوکرے میں دو تازہ ذبح کیے ہوئے بکرے تھے۔ کھالیں اتری ہوئی تھیں، اور ان کے ننگے گوشت میں سے دھواں اٹھ رہا تھا۔ جگہ جگہ پر یہ گوشت جس کو دیکھ کر مسعود کے ٹھنڈے گالوں پر گرمی کی لہریں سی دوڑ جاتی تھیں، پھڑک رہا تھا جیسے کبھی کبھی اس کی آنکھ پھڑکا کرتی تھی۔

اس وقت سوا نو بجے ہوں گے مگر جھکے ہوئے خاکستری بادلوں کے باعث ایسا معلوم ہوتا تھا کہ بہت سویرا ہے۔ سردی میں شدت نہیں تھی، لیکن راہ چلتے آدمیوں کے منہ سے گرم گرم سما وار کی ٹونٹیوں کی طرح گاڑھا سفید دھواں نکل رہا تھا۔ ہر شے بوجھل دکھائی دیتی تھی جیسے بادلوں کے وزن کے نیچے دبی ہوئی ہے۔ موسم کچھ ایسی ہی کیفیت کا حامل تھا جو ربڑ کے جوتے پہن کر چلنے سے پیدا ہوتی ہو۔ اس کے باوجود کہ بازار میں لوگوں کی آمدورفت جاری تھی اور دکانوں میں زندگی کے آثار پیدا ہو چکے تھے؛ آوازیں مدھم تھیں، جیسے سرگوشیاں ہورہی ہیں، چپکے چپکے، دھیرے دھیرے باتیں ہورہی ہیں، ہولے ہولے لوگ قدم اٹھا رہے ہیں کہ زیادہ اونچی آواز پیدا نہ ہو۔

مسعود بغل میں بستہ دبائے اسکول جارہا تھا۔ آج اس کی چال بھی سست تھی۔ جب اس نے بے کھال کے تازہ ذبح کیے ہوئے بکروں کے گوشت سے سفید سفید دھواں اٹھتا دیکھا تو اسے راحت محسوس ہوئی۔ اس دھوئیں نے اس کے ٹھنڈے ٹھنڈے گالوں پر گرم گرم لکیروں کا ایک جال سا بن دیا۔ اس گرمی نے اسے راحت پہنچائی اور وہ سوچنے لگا کہ سردیوں میں ٹھنڈے یخ ہاتھوں پر بید کھانے کے بعد اگر یہ دھواں مل جایا کرے تو کتنا اچھا ہو۔

فضا میں اجلا پن نہیں تھا۔ روشنی تھی مگر دھندلی۔ کہر کی ایک پتلی سی تہہ ہرشے پر چڑھی ہوئی تھی جس سے فضا میں گدلا پن پیدا ہوگیا تھا۔ یہ گدلا پن آنکھوں کو اچھا معلوم ہوتا تھا اس لیے کہ نظر آنے والی چیزوں کی نوک پلک کچھ مدھم پڑ گئی تھی۔

مسعود جب اسکول پہنچا تو اسے اپنے ساتھیوں سے یہ معلوم کرکے قطعی طور پر خوشی نہ ہوئی کہ اسکول سکتر صاحب کی موت کے باعث بند کردیا گیا ہے۔ سب لڑکے خوش تھے جس کا ثبوت یہ تھا کہ وہ اپنے بستے ایک جگہ پر رکھ کر اسکول کے صحن میں اوٹ پٹانگ کھیلوں میں مشغول تھے۔ کچھ چھٹی کا پتہ معلوم کرتے ہی گھر چلے گیے۔ کچھ آرہے تھے اور کچھ نوٹس بورڈ کے پاس جمع تھے اور بار بار ایک ہی عبارت پڑھ رہے تھے۔

مسعود نے جب سنا کہ سکتر صاحب مر گیے ہیں تو اسے بالکل افسوس نہ ہوا۔ اس کا دل جذبات سے بالکل خالی تھا۔ البتہ اس نے یہ ضرور سوچا کہ پچھلے برس جب اس کے د ادا جان کا انتقال ان ہی دنوں میں ہوا تو ان کا جنازہ لے جانے میں بڑی دقت ہوئی تھی اس لیے کہ بارش شروع ہوگئی تھی۔ وہ بھی جنازے کے ساتھ گیا تھا اور قبرستان میں چکنی کیچڑ کے باعث ایسا پھسلا تھا کہ کھدی ہوئی قبر میں گرتے گرتے بچا تھا۔ یہ سب باتیں اس کو اچھی طرح یاد تھیں۔ سردی کی شدّت، اس کے کیچڑ سے لت پت کپڑے، سرخی مائل نیلے ہاتھ جن کو دبانے سے سفید سفید دھبے پڑ جاتے تھے، ناک جو کہ برف کی ڈلی معلوم ہوتی تھی اور پھر آکر ہاتھ پاؤں دھونے اور کپڑے بدلنے کا مرحلہ۔۔۔ یہ سب کچھ اس کو اچھی طرح یاد تھا۔ چنانچہ جب اس نے سکتر صاحب کی موت کی خبر سنی تو اسے یہ بیتی ہوئی باتیں یاد آگئیں اور اس نے سوچا، جب سکتر صاحب کا جنازہ اٹھے گا تو بارش شروع ہو جائے گی اور قبرستان میں اتنی کیچڑ ہو جائے گی کہ کئی لوگ پھسلیں گے اور ان کو ایسی چوٹیں آئیں گی کہ بلبلا اٹھیں گے۔

مسعود نے یہ خبر سن کر سیدھا اپنی کلاس کا رخ کیا۔ کمرے میں پہنچ کر اس نے اپنے ڈسک کا تالا کھولا۔ دو تین کتابیں جو کہ اسے دوسرے روز پھر لانا تھیں، اس میں رکھیں اور باقی بستہ اٹھا کرگھر کی جانب چل پڑا۔

راستے میں اس نے پھر وہی دو تازہ ذبح کیے ہوئے بکرے دیکھے۔ ان میں سے ایک کو اب قصائی نے لٹکا دیا تھا دوسرا تختے پر پڑا تھا۔ جب مسعو د دکان پر سے گزرا تو اس کے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ وہ گوشت کو جس میں سے دھواں اٹھ رہا تھا، چھو کر دیکھے۔ چنانچہ آگے بڑھ کر اس نے انگلی سے بکرے کے اس حصّے کو چھوکر دیکھا جو ابھی تک پھڑک رہا تھا۔ گوشت گرم تھا۔ مسعود کی ٹھنڈی انگلی کو یہ حرارت بہت بھلی معلوم ہوئی۔ قصائی دکان کے اندر چھریاں تیز کرنے میں مصروف تھا۔ چنانچہ مسعود نے ایک بار پھر گوشت کو چھو کر دیکھا اور وہاں سے چل پڑا۔

گھر پہنچ کر اس نے جب اپنی ماں کو سکتر صاحب کی موت کی خبر سنائی تو اسے معلوم ہوا کہ اس کے ابا جی انہی کے جنازے کے ساتھ گیے ہیں۔ اب گھرمیں صرف دو آدمی تھے۔ ماں اور بڑی بہن۔ ماں باورچی خانہ میں بیٹھی سالن پکا رہی تھی اور بڑی بہن کلثوم پاس ہی ایک کانگڑی لیے درباری کی سرگم یاد کررہی تھی۔

چونکہ گلی کے دوسرے لڑکے گورنمنٹ اسکول میں پڑھتے تھے۔ جس پر اسلامیہ اسکول کے سکتر کی موت کا کچھ اثر نہیں پڑا تھا۔ اس لیے مسعود نے خود کو بالکل بیکار محسوس کیا۔ اسکول کا کوئی کام بھی نہیں تھا۔ چھٹی جماعت میں جو کچھ پڑھایا جاتا ہے وہ گھر میں اپنے ابا جی سے پڑھ چکا تھا۔ کھیلنے کے لیے بھی اس کے پاس کوئی چیز نہ تھی۔ ایک میلا کچیلا تاش طاق میں پڑا تھا مگر اس سے مسعود کو کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ لوڈو اور اسی قسم کے دوسرے کھیل جو اس کی بڑی بہن اپنی سہیلیوں کے ساتھ ہر روز کھیلتی تھی اس کی سمجھ سے بالاتر تھے۔ سمجھ سے بالاتر یوں تھے کہ مسعود نے کبھی ان کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی تھی۔ اس کو فطرتاً ایسے کھیلوں سے کوئی لگاؤ نہیں تھا۔

بستہ اپنی جگہ پر رکھنے اور کوٹ اتارنے کے بعد وہ باورچی خانے میں اپنی ماں کے پاس بیٹھ گیا اور درباری کی سرگم سنتا رہا جس میں کئی دفعہ سارے گاما آتا تھا۔ اس کی ماں پالک کاٹ رہی تھی۔ پالک کاٹنے کے بعد اس نے سبزسبز پتوں کا گیلا گیلا ڈھیر اٹھا کر ہنڈیا میں ڈال دیا۔ تھوڑی دیر کے بعد جب پالک کو آنچ لگی تو اس میں سے سفید سفید دھواں اٹھنے لگا۔ اس دھوئیں کو دیکھ کر مسعود کو بکرے کا گوشت یاد آگیا۔ چنانچہ اس نے اپنی ماں سے کہا، ’’امی جان، آج میں نے قصائی کی دکان پر دو بکرے دیکھے۔ کھال اتری ہوئی تھی اور ان میں سے دھواں نکل رہا تھا بالکل ایسے ہی جیسا کہ صبح سویرے میرے منہ سے نکلا کرتاہے۔‘‘

’’اچھا۔۔۔!‘‘ یہ کہہ کر اس کی ماں چولھے میں لکڑیوں کے کوئلے جھاڑنے لگی۔ ’’ہاں اور میں نے گوشت کو اپنی انگلی سے چھو کر دیکھا تو وہ گرم تھا۔‘‘

’’اچھا۔۔۔!‘‘ یہ کہہ کر اس کی ماں نے وہ برتن اٹھایا جس میں اس نے پالک کا ساگ دھویا تھا اور باورچی خانہ سے باہر چلی گئی۔

’’اور یہ گوشت کئی جگہ پر پھڑکتا بھی تھا۔‘‘

’’اچھا۔۔۔‘‘ مسعود کی بڑی بہن نے درباری سرگم یاد کرنا چھوڑ دی اور اس کی طرف متوجہ ہوئی۔ ’’کیسے پھڑکتا تھا؟‘‘

’’یوں۔۔۔ یوں۔‘‘ مسعود نے انگلیوں سے پھڑکن پیدا کرکے اپنی بہن کو دکھائی۔

’’تو پھر کیا ہوا؟‘‘

یہ سوال کلثوم نے اپنے سرگم بھرے دماغ سے کچھ اس طور پر نکالا کہ مسعود ایک لحظے کے لیے بالکل خالی الذہن ہو گیا۔ ’’پھر کیا ہونا تھا، میں نے تو ایسے ہی آپ سے بات کی تھی کہ قصائی کی دکان پر گوشت پھڑک رہا تھا۔ میں نے انگلی سے چھو کر بھی دیکھا تھا۔ گرم تھا۔‘‘

’’گرم تھا۔۔۔ اچھا مسعود یہ بتاؤ تم میرا ایک کام کرو گے۔‘‘

’’بتائیے۔‘‘

’’آؤ، میرے ساتھ آؤ۔‘‘

’’نہیں آپ پہلے بتائیے۔ کام کیا ہے۔‘‘

’’تم آؤ تو سہی میرے ساتھ۔‘‘

’’جی نہیں۔۔۔ آپ پہلے کام بتائیے۔‘‘

’’دیکھو میری کمر میں بڑا درد ہورہا ہے۔۔۔ میں پلنگ پر لیٹتی ہوں، تم ذرا پاؤں سے دبا دینا۔۔۔ اچھے بھائی جو ہوئے۔ اللہ کی قسم بڑا درد ہورہا ہے۔‘‘یہ کہہ کر مسعود کی بہن نے اپنی کمر پر مکیاں مارنا شروع کردیں۔

’’یہ آپ کی کمر کو کیا ہو جاتا ہے۔ جب دیکھو درد ہورہا ہے، اور پھر آپ دبواتی بھی مجھی سے ہیں، کیوں نہیں اپنی سہیلیوں سے کہتیں۔‘‘ مسعود اٹھ کھڑا ہوا۔

’’چلیے، لیکن یہ آپ سے کہے دیتا ہوں کہ دس منٹ سے زیادہ میں بالکل نہیں دباؤں گا۔‘‘

’’شاباش۔۔۔ شاباش۔‘‘ اس کی بہن اٹھ کھڑی ہوئی اور سرگموں کی کاپی سامنے طاق میں رکھ کر اس کمرے کی طرف روانہ ہوئی جہاں وہ اور مسعود دونوں سوتے تھے۔صحن میں پہنچ کر اس نے اپنی دکھتی ہوئی کمر سیدھی کی اور اوپر آسمان کی طرف دیکھا۔ مٹیالے بادل جھکے ہوئے تھے۔ ’’مسعود، آج ضرور بارش ہوگی۔‘‘یہ کہہ کر اس نے مسعود کی طرف دیکھا مگر وہ اندر اپنی چارپائی پر لیٹا تھا۔

جب کلثوم اپنے پلنگ پر اوندھے منہ لیٹ گئی تو مسعود نے اٹھ کرگھڑی میں وقت دیکھا۔ ’’ دیکھئے باجی گیارہ بجنے میں دس منٹ باقی ہیں۔ میں پورے گیارہ بجے آپ کی کمر دابنا چھوڑ دوں گا۔‘‘

’’بہت اچھا، لیکن تم اب خدا کے لیے زیادہ نخرے نہ بگھارو۔ ادھر میرے پلنگ پر آکر جلدی کمر دباؤ ورنہ یاد رکھو بڑے زور سے کان اینٹھوں گی۔‘‘ کلثوم نے مسعود کو ڈانٹ پلائی۔ مسعود نے اپنی بڑی بہن کے حکم کی تعمیل کی اور دیوار کا سہارا لے کر پاؤں سے اس کی کمر دباناشروع کردی۔ مسعود کے وزن کے نیچے کلثوم کی چوڑی چکلی کمر میں خفیف سا جھکاؤ پیدا ہوگیا۔ جب اس نے پیروں سے دبانا شروع کیا، ٹھیک اسی طرح جس طرح مزدور مٹی گوندھتے ہیں تو کلثوم نے مزا لینے کی خاطر ہولے ہولے ہائے ہائے کرنا شروع کیا۔

کلثوم کے کولھوں پر گوشت زیادہ تھا، جب مسعود کا پاؤں اس حصے پر پڑا تو اسے ایسا محسوس ہوا کہ وہ اس بکرے کے گوشت کو دبا رہا ہے جو اس نے قصائی کی دکان میں اپنی انگلی سے چھو کر دیکھا تھا۔ اس احساس نے چند لمحات کے لیے اس کے دل و دماغ میں ایسے خیالات پیدا کیے جن کا کوئی سر تھا نہ پیر، وہ ان کا مطلب نہ سمجھ سکا اور سمجھتا بھی کیسے جبکہ کوئی خیال مکمل نہیں تھا۔

ایک دوبار مسعود نے یہ بھی محسوس کیا کہ اس کے پیروں کے نیچے گوشت کے لوتھڑوں میں حرکت پیدا ہوئی ہے، اسی قسم کی حرکت جو اس نے بکرے کے گرم گرم گوشت میں دیکھی تھی۔ اس نے بڑی بددلی سے کمر دبانا شروع کی تھی مگر اب اسے اس کام میں لذت محسوس ہونے لگی۔ اس کے وزن کے نیچے کلثوم ہولے ہولے کراہ رہی تھی۔ یہ بھنچی بھنچی آواز جو کہ مسعود کے پیروں کی حرکت کا ساتھ دے رہی تھی اس گمنام سی لذت میں اضافہ کررہی تھی۔

ٹائم پیس میں گیارہ بج گیے مگر مسعود اپنی بہن کلثوم کی کمر دباتا رہا۔ جب کمر اچھی طرح دبائی جا چکی تو کلثوم سیدھی لیٹ گئی اور کہنے لگی۔ ’’شاباش مسعود، شاباش۔ لو اب لگے ہاتھوں ٹانگیں بھی دبا دو، بالکل اسی طرح۔۔۔ شاباش میرے بھائی۔‘‘

مسعود نے دیوار کا سہارا لے کر کلثوم کی رانوں پر جب اپنا پورا وزن ڈالا تو اس کے پاؤں کے نیچے مچھلیاں سی تڑپ گئیں۔ بے اختیار وہ ہنس پڑی اور دہری ہوگئی۔ مسعود گرتے گرتے بچا، لیکن اس کے تلووں میں مچھلیوں کی وہ تڑپ منجمد سی ہوگئی۔ اس کے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ وہ پھر اسی طرح دیوارکا سہارا لے کر اپنی بہن کی رانیں دبائے، چنانچہ اس نے کہا،’’یہ آپ نے ہنسنا کیوں شروع کردیا۔ سیدھی لیٹ جائیے۔ میں آپ کی ٹانگیں دبا دوں۔‘‘

کلثوم سیدھی لیٹ گئی۔ رانوں کی مچھلیاں ادھر ادھر ہونے کے باعث جو گدگدی پیدا ہوئی تھی اس کا اثر ابھی تک اس کے جسم میں باقی تھا۔ ’’نابھائی میرے گدگدی ہوتی ہے۔ تم اوٹ پٹانگ طریقے سے دباتے ہو۔‘‘

مسعود نے خیال کیا کہ شاید اس نے غلط طریقہ استعمال کیا ہے۔ نہیں، اب کی دفعہ میں پورا بوجھ آپ پر نہیں ڈالوں گا۔۔۔ آپ اطمینان رکھیے۔ اب ایسی اچھی طرح دباؤں گا کہ آپ کو کوئی تکلیف نہ ہوگی۔‘‘

دیوار کا سہارا لے کر مسعود نے اپنے جسم کو تولا اور اس انداز سے آہستہ آہستہ کلثوم کی رانوں پر اپنے پیر جمائے کہ اس کا آدھا بوجھ کہیں غائب ہوگیا۔ ہولے ہولے بڑی ہوشیاری سے اس نے اپنے پیر چلانے شروع کیے۔ کلثوم کی رانوں میں اکڑی ہوئی مچھلیاں اس کے پیروں کے نیچے دب دب کر ادھر ادھر پھسلنے لگیں۔ مسعود نے ایک بار اسکول میں تنے ہوئے رسے پر ایک بازیگر کو چلتے دیکھا تھا۔ اس نے سوچا کہ بازیگر کے پیروں کے نیچے تنا ہوا رسا اسی طرح پھسلتا ہوگا۔

اس سے پہلے کئی بار اس نے اپنی بہن کلثوم کی ٹانگیں دبائی تھیں مگر وہ لذت جو کہ اسے اب محسوس ہورہی تھی پہلے کبھی محسوس نہیں ہوئی تھی۔ بکرے کے گرم گرم گوشت کا اسے بار بار خیال آتا تھا۔ ایک دو مرتبہ اس نے سوچا، ’’کلثوم کو اگر ذبح کردیا جائے تو کھال اتر جانے پر کیا اس کے گوشت میں سے بھی دھواں نکلے گا؟‘‘ لیکن ایسی بیہودہ باتیں سوچنے پر اس نے اپنے آپ کو مجرم محسوس کیا اور دماغ کو اس طرح صاف کردیا جیسے وہ سلیٹ کو اسفنج سے صاف کیا کرتا تھا۔

’’بس بس۔‘‘ کلثوم تھک گئی۔ ’’بس بس۔‘‘

مسعود کو ایک دم شرارت سوجھی۔ وہ پلنگ پر سے نیچے اترنے لگا تو اس نے کلثوم کی دونوں بغلوں میں گدگدی کرنا شروع کردی۔ ہنسی کے مارے وہ لوٹ پوٹ ہوگئی۔ اس میں اتنی سکت نہیں تھی کہ وہ مسعود کے ہاتھوں کو پرے جھٹک دے۔ لیکن جب اس نے ارادہ کرکے اس کے لات جمانی چاہی تو مسعود اچھل کر زد سے باہر ہوگیا اور سلیپر پہن کر کمرے سے نکل گیا۔

جب وہ صحن میں داخل ہوا تو اس نے دیکھا کہ ہلکی ہلکی بوندا باندی ہورہی ہے۔ بادل اور بھی جھک آئے تھے۔ پانی کے ننھے ننھے قطرے آواز پیدا کیے بغیر صحن کی اینٹوں میں آہستہ آہستہ جذب ہورہے تھے۔ مسعود کا جسم ایک دل نواز حرارت محسوس کررہا تھا۔ جب ہوا کا ٹھنڈا ٹھنڈا جھونکا اس کے گالوں کے ساتھ مس ہوا اور دو تین ننھی ننھی بوندیں اس کی ناک پر پڑیں تو ایک جھرجھری سی اس کے بدن میں لہرا اٹھی۔ سامنے کوٹھے کی دیوار پر ایک کبوتر اور کبوتری پاس پاس پَر پھلائے بیٹھے تھے، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ دونوں دم پخت کی ہوئی ہنڈیا کی طرح گرم ہیں۔ گل داؤدی اور نازبو کے ہرے ہرے پتے اوپر لال لال گملوں میں نہا رہے تھے۔ فضا میں نیندیں گھلی ہوئی تھیں۔ ایسی نیندیں جن میں بیداری زیادہ ہوتی ہے اور انسان کے اردگرد نرم نرم خواب یوں لپٹ جاتے ہیں جیسے اونی کپڑے۔

مسعود ایسی باتیں سوچنے لگا۔ جن کا مطلب اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ وہ ان باتوں کو چھو کردیکھ سکتا تھا مگر ان کا مطلب اس کی گرفت سے باہر تھا، پھر بھی ایک گمنام سا مزا اس سوچ بچار میں اسے آرہا تھا۔

بارش میں کچھ دیر کھڑے رہنے کے باعث جب مسعود کے ہاتھ بالکل یخ ہوگیے اور دبانے سے ان پر سفید دھبے پڑنے لگے تو اس نے مٹھیاں کس لیں اور ان کو منہ کی بھاپ سے گرم کرنا شروع کیا۔ ہاتھوں کو اس عمل سے کچھ گرمی تو پہنچی مگر وہ نم آلود ہوگیے۔ چنانچہ آگ تاپنے کے لیے وہ باورچی خانہ میں چلا گیا۔ کھانا تیار تھا، ابھی اس نے پہلا لقمہ ہی اٹھایا تھا کہ اس کا باپ قبرستان سے واپس آگیا۔

باپ بیٹے میں کوئی بات نہ ہوئی۔ مسعود کی ماں اٹھ کر فوراً دوسرے کمرے میں چلی گئی اور وہاں دیر تک اپنے خاوند کے ساتھ باتیں کرتی رہی۔

کھانے سے فارغ ہو کر مسعود بیٹھک میں چلا گیا اور کھڑکی کھول کر فرش پر لیٹ گیا۔ بارش کی وجہ سے سردی کی شدت بڑھ گئی تھی کیونکہ اب ہوا بھی چل رہی تھی، مگر یہ سردی ناخوشگوار معلوم نہیں ہوتی تھی۔ تالاب کے پانی کی طرح یہ اوپر ٹھنڈی اور اندر گرم تھی۔

مسعود جب فرش پر لیٹا تو اس کے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ وہ اس سردی کے اندر دھنس جائے جہاں اس کے جسم کوراحت انگیز گرمی پہنچے۔ دیر تک وہ ایسی شِیرگرم باتوں کے متعلق سوچتا رہا جس کے باعث اس کے پٹھوں میں ہلکی ہلکی سی دکھن پیدا ہوگئی۔ ایک دو بار اس نے انگڑائی لی تو اسے مزا آیا۔ اس کے جسم کے کسی حصّے میں، یہ اس کو معلوم نہیں تھا کہ کہاں، کوئی چیز اٹک سی گئی تھی، یہ چیز کیا تھی۔ اس کے متعلق بھی مسعود کو علم نہیں تھا۔ البتہ اس اٹکاؤ نے اس کے سارے جسم میں اضطراب، ایک دبے ہوئے اضطراب کی کیفیت پیدا کردی تھی۔ اس کا سارا جسم کھنچ کر لمبا ہو جانے کا ارادہ بن گیا تھا۔

دیر تک گدگدے قالین پر کروٹیں بدلنے کے بعد وہ اٹھا اور باورچی خانہ سے ہوتا ہوا صحن میں آنکلا۔ نہ کوئی باورچی خانہ میں تھا اور نہ صحن میں۔ ادھر ادھر جتنے کمرے تھے سب کے سب بند تھے۔ بارش اب رک گئی تھی۔ مسعود نے ہاکی اور گیند نکالی اور صحن میں کھیلنا شروع کردیا۔ ایک بار جب اس نے زور سے ہٹ لگائی تو گیند صحن کے دائیں ہاتھ والے کمرے کے دروازے پرلگی۔ اندر سے مسعود کے باپ کی آواز آئی، ’’کون؟‘‘

’’جی میں ہوں مسعود!‘‘

اندر سے آواز آئی، ’’کیا کررہے ہو؟‘‘

’’جی کھیل رہا ہوں۔‘‘

’’کھیلو۔۔۔‘‘ پھر تھوڑے سے توقف کے بعد اس کے باپ نے کہا،’’ تمہاری ماں میرا سردبا رہی ہے۔۔۔ زیادہ شور نہ مچانا۔‘‘

یہ سن کر مسعود نے گیند وہیں پڑی رہنے دی اور ہاکی ہاتھ میں لیے سامنے والے کمرے کا رخ کیا۔ اس کا ایک دروازہ بند تھا اور دوسرا نیم وا۔۔۔ مسعود کو ایک شرارت سوجھی۔ دبے پاؤں وہ نیم وا دروازے کی طرف بڑھا اور دھماکے کے ساتھ دونوں پٹ کھول دیے۔ دو چیخیں بلند ہوئیں اور کلثوم اور اس کی سہیلی بملا نے جو کہ پاس پاس لیٹی تھی، خوف زدہ ہو کر جھٹ سے لحاف اوڑھ لیا۔

بملا کے بلاؤز کے بٹن کھلے ہوئے تھے اور کلثوم اس کے عریاں سینے کو گھور رہی تھی۔

مسعود کچھ سمجھ نہ سکا، اس کے دماغ میں دھواں سا چھا گیا۔ وہاں سے الٹے قدم لوٹ کر وہ جب بیٹھک کی طرف روانہ ہوا تو اسے معاً اپنے اندر ایک اتھاہ طاقت کا احساس ہوا۔ جس نے کچھ دیر کے لیے اس کی سوچنے سمجھنے کی قوت بالکل کمزور کردی۔بیٹھک میں کھڑکی کے پاس بیٹھ کر جب مسعود نے ہاکی کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر گھٹنے پر رکھا تو یہ سوچا کہ ہلکا سا دباؤ ڈالنے پرہاکی میں خم پیدا ہوجائے گا، اور زیادہ زور لگانے پر ہینڈل چٹاخ سے ٹوٹ جائے گا۔ اس نے گھٹنے پر ہاکی کے ہینڈل میں خم تو پیدا کر لیا مگر زیادہ سے زیادہ زورلگانے پر بھی وہ ٹوٹ نہ سکا۔ دیر تک وہ ہاکی کے ساتھ کشتی لڑتا رہا۔ جب وہ تھک کر ہار گیا تو جھنجھلا کر اس نے ہاکی پرے پھینک دی۔


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.