دہلی کی آخری شمع/تمہید

تمہید


نام نیکِ رفتگاں ضائع مکن

تا بماند نامِ نیکت برقرار

بقول غالبؔ مرحوم ’’انسان ایک محشرِ خیال ہے‘‘ لیکن خیال میں حشر بپا ہونے کے لیے کسی بیرونی تحریک کا ہونا لازمی ہے۔ دماغ خیال کا گنجینہ ہے، لیکن اِس گنجینے کے کھلنے کے واسطے کسی ظاہری اسباب کی کنجی کی ضرورت ہے۔ مجھے بچپن سے شعرائے اردو کے حالات پڑھنے اور سننے کا شوق رہا ہے، مگر کبھی کوئی ایسی تحریک نہیں ہوئی جو ان کے حالات کو ایک جگہ جمع کرنے کا خیال پیدا کرتی اور یہ خیالات الفاظ کی شکل میں ظاہر ہو کر ایک خوش نما چلتی پھرتی تصویر بن جاتے۔

جب کوئی بات ہونے والی ہوتی ہے تو اسباب خود بہ خود پیدا ہو جاتے ہیں۔ اتفاق دیکھیے کہ پرانے قدیم کاغذات میں مجھ کو حکیم مومن خاں مومنؔ دہلوی کی ایک قلمی تصویر ملی۔ تصویر کا ملنا تھا کہ یہ خیال پیدا ہوا کہ تو بھی محمد حسین آزادؔ مرحوم کے نیرنگِ خیال کی محفل شعرا کی طرح ایک مشاعرہ قائم کر، مگر ان لوگوں کے کلام پر تنقید کرنے کی بجائے صرف ان کی چلتی پھرتی تصویریں دکھا۔ خیال میں رفتہ رفتہ پختگی ہوئی اور اس پختگی خیال نے ایک مشاعرے کا خاکہ پیشِ نظر کر دیا، لیکن یہ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ مختلف زمانوں کے شاعروں کو کس طرح ایک جگہ جمع کروں۔ اس عُقدے کو امیر اللہ تسلیمؔ مرحوم کے اس شعر نے حل کر دیا:

جوانی سے زیادہ وقتِ پیری جوش ہوتا ہے

بھڑکتا ہے چراغِ صبح جب خاموش ہوتا ہے

اس شعر کا یاد آنا تھا کہ شعرائے دہلی کا آخری دور آنکھوں کے سامنے پھر گیا اور دل میں یہ بات جم گئی کہ بجائے تمام شعرائے اردو کے، دہلی کے آخری دور کا نقشہ کھینچ دیا جائے۔ قاعدے کی بات ہے کہ مرنے سے پہلے بیمار سنبھالا لیتا ہے۔ اردو شاعری کے حق میں بہادر شاہ ثانی کا زمانہ بھی دہلی کا سنبھالا تھا۔ بادشاہت برائے نام تھی اور جو تنخواہ بادشاہ سلامت کو ملتی تھی، اس میں قلعے کا خرچ بھی مشکل سے چلتا تھا۔ برخلاف اِس کے دکن اور اودھ میں دولت کی گنگا بہہ رہی تھی۔ پھر بھی دریائے جمنا کی چمکیلی ریت دہلی والوں کے لیے نظر فریب رہی اور اس ’’اجڑے دیار‘‘ میں شعرا ہی نہیں ہر فن کے کاملوں کا ایک ایسا مجمع ہو گیا جس کی نظیر ہندوستان تو ہندوستان، دوسرے کسی ملک میں بھی ملنی دشوار ہے۔

زمانہ ایک رنگ پر نہیں رہتا۔ ۱۸۵۷ء سے قبل ہی اُن کاملین فن میں سے بہت سے تو ملکِ عدم کو سدھارے، جو بچے کھچے رہ گئے تھے، ان کو غدر کے طوفان نے تِتّر بِتّر کر دیا۔ جس کو جہاں کچھ سہارا ملا، وہیں کا ہو رہا۔ دہلی برباد ہو کر حیدر آباد اور رام پور آباد ہوئے۔ اکثر شرفا گھروں سے ایسے نکلے کہ پھر ان کو دہلی کی صورت دیکھنی نصیب نہ ہوئی۔ جو رہ گئے ہیں، وہ چلنے چلانے کو تیار بیٹھے ہیں۔ بہت سے اٹھ گئے، بہت سے اٹھتے جاتے ہیں اور ایک زمانہ وہ آنے والا ہے کہ کوئی یہ بتانے والا بھی نہ رہے گا کہ مومن مرحوم کا مکان کہاں تھا۔ جس طرح سوائے میرے اب شاید کسی کو یہ بھی معلوم نہیں کہ ان کی قبر کہاں ہے۔

ان چراغ ہائے سحری کو دیکھ دیکھ کر مجھے خیال آیا اور اس خیال کی محرک مومنؔ مرحوم کی تصویر بھی ہوئی کہ اردو کے لیے ان سے ایک ایسا تو چراغ روشن کر لوں جس کی روشنی میں آنے والی نسلیں زبانِ اردو کے اُن محسنوں کی شکلیں (خواہ وہ دھندلی ہی کیوں نہ سہی) دیکھ سکیں اور ان کا کلام پڑھتے وقت کم سے کم ان کی صورتوں کا ایک موہوم سا نقشہ پڑھنے والوں کی آنکھوں کے سامنے پھر جائے۔ جو لوگ علمی مذاق رکھتے ہیں، وہ جانتے اور سمجھتے ہیں کہ کسی کا کلام پڑھتے وقت اگر اس کی شکل و صورت، حرکات و سکنات، آواز کی کیفیت، نشست و برخاست کے طریقے، طبیعت کا رنگ اور سب سے زیادہ یہ کہ اس کے لباس اور وضع قطع کا خیال دل میں رہے تو اس کا کلام ایک خاص اثر پیدا کر دیتا ہے اور پڑھنے کا لطف دو بالا ہو جاتا ہے، ورنہ مصنف کے حالات سے واقف ہوئے بغیر اس کی کسی کتاب کا پڑھ لینا، گرامو فون کے ریکارڈ سننے سے زیادہ مؤثر نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ آج کل مہذب ممالک کے کسی مصنف کی کوئی کتاب شائع نہیں ہوتی، جس کے شروع میں اس کے حالات درج نہ کیے جائیں اور وہ واقعات نہ دکھائے جائیں جن کی موجودگی میں وہ تصنیف ضبط تحریر میں آئی۔ یہی خیالات تھے جنہوں نے مجھے ان چند اوراق کے لکھنے پر آمادہ کیا۔ اس البم میں آپ ایسی بہت سی تصویریں دیکھیں گے جو ان کاملین فن نے اپنے ہاتھ سے خود کھینچی ہیں، بہت سے ایسے مرقعے پائیں گے جو دوسرے مصوروں کے ہاتھ کے بنے ہوئے ہیں، بعض ایسے نقش و نگار ملیں گے جو فوٹو یا قلمی تصاویر دیکھ کر الفاظ میں اتارے گئے ہیں۔ اکثر و بیشتر ایسی صورتیں ہوں گی جو خود میں نے بڑے بوڑھوں سے پوچھ کر بنائی ہیں، لیکن ہر صورت میں شہادتِ تائیدی کے مقابلے میں شہادتِ تردیدی کو زیادہ وقعت دی ہے۔ یعنی اگر کسی واقعے کے متعلق ایک بھی مخالف بات معلوم ہوئی تو اُس واقعے کو قطعاً ترک کر دیا۔

اگر اتنے سارے حلیے ایک جگہ ہی جمع ہو جاتے تو یقیناً یہ مضمون فوج کے چہروں کا رجسٹر بن کر بے لطف ہو جاتا، لیکن ادھر تو آزادؔ مرحوم کے نیرنگ خیال نے دل میں مشاعرے کا خیال ڈالا، اُدھر کریم الدین مغفور کی کتاب ’’طبقات الشعرائے ہند‘‘ کے طبقۂ چہارم نے رجب ۱۲۶۱ھ کے ایک مشاعرے کا پتا دیا۔ اب کیا تھا، دونوں کو ملا کر ایک مضمون پیدا کر لیا۔ رہی رنگ آمیزی، اس کی تکمیل میں خود کر دیتا ہوں، البتہ اچھے برے کی ذمہ داری نہیں لیتا۔ بہ حیثیت مورخ ۱۲۶۱ھ کے واقعات میں خود اس طرح لکھ سکتا تھا گویا یہ سب میرے چشم دید ہیں اور:

ہمچو سبزہ بارہا روئیدہ ام

ہفت صد ہفتاد قالب دیدہ ام

پر نظر رکھتے ہوئے اس زمانے کا بھی ’’مرزا صاحب‘‘ بن سکتا تھا، مگر میرے دل نے گوارا نہیں کیا کہ کریم الدین مرحوم کی کامیابی کا سہرا اپنے سر پر باندھوں اور ایسے شخص کو دودھ کی مکھی کی طرح نکال کر پھینک دوں جس نے اس مشاعرے میں بہت بڑا حصہ لیا تھا، جس کے مکان پر یہ مشاعرہ ہوا تھا اور جو اس مشاعرے کی روح رواں تھا۔ یہ ضرور ہے کہ ان کی یہ مجلس محدود تھی اور میں نے اس کو اتنی وسعت دی ہے کہ اس زمانے کے تقریباً سب بڑے بڑے شعرا کو اس میں لا بٹھایا ہے۔ اب اس میں مجھے کامیابی ہوئی یا نہیں، اس کا اندازہ قارئین کِرام فرما سکتے ہیں۔ اگر ہوئی ہے تو زِہے نصیب! میری محنت ٹھکانے لگی۔ اگر نہیں ہوئی، تو کم سے کم یہی سمجھ کر میری داد دی جائے کہ مرزا صاحب نے بات تو اچھی پیدا کی تھی مگر نباہ نہ سکے، جو ان سے نہیں ہوا وہ اب ہم کر دکھاتے ہیں۔ ممکن ہے کہ اس طرح کوئی قلم کا دھَنی ’’اُن خفتگانِ خاک‘‘ کا کوئی ایسا مرقع تیار کر دے جو بزم ادبِ اردو میں سجانے کے قابل ہو۔

لیجیے اب مولوی کریم الدین صاحب کی جون میں حاضرِ خدمت ہوتا ہوں، لیکن یہ ضرور عرض کیے دیتا ہوں کہ جب میں اپنی تمام محنت کریم الدین صاحب کی نذر کر رہا ہوں تو جو کچھ برا بھلا آپ کو اس مضمون کے متعلق کہنا ہے وہ مجھے نہ کہیے، مولوی صاحب کو کہیے اور خوب دل بھر کر کہیے، میں خوش اور میرا خدا خوش۔ والسلام

مرزا فرحت اللہ بیگ