دہلی کی آخری شمع/تکمیل
تکمیل
حضورِ شاہ میں اہلِ سخن کی آزمایش ہے
چمن میں خوش نوایانِ چمن کی آزمایش ہے
نقیب کی آواز کے ساتھ ہی سب اہلِ محفل دو زانو ہو، سنبھل کر بیٹھ گئے اور پاسِ ادب سے سب نے گردنیں جھکا لیں۔ خواص نے بادشاہ سلامت کی غزل خَریطے میں سے نکالی، بوسہ دیا، آنکھوں سے لگایا اور بلند آواز سے سورٹھ کے سُروں میں پڑھنا شروع کیا۔ الفاظ کی نشست، زبان کی خوبی، مضمون کی آمد اور سب سے زیادہ پڑھنے والے کے گلے نے ایک سماں باندھ دیا۔ ایک کیفیت تھی کہ زمین سے آسمان تک چھائی ہوئی تھی۔ کسی کو تعریف کرنے کا بھی ہوش نہ تھا۔ استادانِ فن ہر شعر پر جھومتے تھے۔ کبھی کبھی کسی کے منہ سے ’’سبحان اللہ‘‘ کے الفاظ بہت نیچی آواز میں نکل گئے تو نکل گئے ورنہ ساری مجلس پر ایک عالمِ بے خودی طاری تھا۔ مقطعے پر تو یہ حال ہوا جیسے کسی نے سب پر جادو کر دیا۔ ہر شخص وَجد میں جھوم رہا تھا۔ بہ اصرارِ تمام کئی کئی دفعہ مقطع پڑھوایا اور مضمون اور زبان کی چاشنی کا لطف اٹھایا۔ لیجیے آپ بھی پڑھیے اور زبان کے مزے لیجیے:
نہیں عشق میں اِس کا تو رنج ہمیں کہ قرار و شکیب ذرا نہ رہا
غمِ عشق تو اپنا رفیق رہا، کوئی اور بلا سے رہا نہ رہا
نہ تھی حال کی جب ہمیں اپنے خبر، رہے دیکھتے اوروں کے عیب و ہنر
پڑی اپنی برائیوں پر جو نظر، تو نگاہ میں کوئی برا نہ رہا
ہمیں ساغرِ بادہ کے دینے میں اب، کرے دیر جو ساقی تو ہائے غضب
کہ یہ عہدِ نَشاط، یہ دورِ طَرب، نہ رہے گا جہاں میں سدا، نہ رہا
لگے یوں تو ہزاروں ہی تیر ستم کہ تڑپتے رہے پڑے خاک پہ ہم
ولے ناز و کرشمہ کی تیغِ دو دم لگی ایسی کہ تسمہ لگا نہ رہا
ظفرؔ! آدمی اُس کو نہ جانیے گا، ہو وہ کیسا ہی صاحبِ فہم و ذَکا
جسے عیش میں یادِ خدا نہ رہی، جسے طیش میں خوفِ خدا نہ رہا
غزل پڑھ چکنے کے بعد خواص نے کاغذ مرزا فخرو کے ہاتھ میں دیا۔ زر افشاں کاغذ پر خود حضرت ظل اللہ کے قلم کی لکھی ہوئی غزل تھی۔ خط ایسا پاکیزہ تھا کہ آنکھوں میں کھبا جاتا تھا۔ مرزا فخرو نے کاغذ لے کر ادھر ادھر دیکھا۔ مملوک العلی نے سینے پر ہاتھ رکھ کر کہا: صاحبِ عالم! ہمارا کیا منہ ہے جو ہم حضرت ظل سبحانی کی غزل کی جیسی چاہیے ویسی تعریف کر سکیں، البتہ اُن نوازشاتِ شاہی کا شکریہ ادا کرتے ہیں جو حضرت پیر و مرشد نے غزل بھیج کر شرکائے مشاعرہ پر مبذول فرمائی ہیں۔ بارگاہِ جہاں پناہی میں ہمارا ناچیز شکریہ پیش کر کے ہماری عزت افزائی فرمائی جائے۔ مرزا فخرو نے خواص کی طرف دیکھا۔ اس نے عرض کی: قبلۂ عالم! میں یہ پیام جاتے ہی پیش گاہِ عالی میں پہنچا دوں گا۔ خواص آداب بجا لا کر جانے والا ہی تھا کہ مرزا فخرو نے روکا اور کہا: جانے سے پہلے صاحبِ عالم و عالمیان حضرت ولی عہد بہادر کی غزل بھی پڑھتے جاؤ، چلتے چلتے مجھے عنایت کی تھی اور فرمایا تھا کہ کسی خوش گلو شخص سے پڑھوانا، بھلا تم سے زیادہ موزوں اور کون شخص مل سکتا ہے؟ یہ کہہ کر جیب میں ہاتھ ڈالا اور ایک کاغذ نکال کر خواص کو دیا۔ اس نے آداب کر کے کاغذ لیا اور وہیں بیٹھ کر یہ غزل سنائی:
دل سے لطف و مہربانی اور ہے
مہربانی کی نشانی اور ہے
قصۂ فرہاد و مجنوں اور ہے
عشق کی میری کہانی اور ہے
روکنے سے کب مرے رکتے ہیں اشک
بلکہ ہوتی خوں فشانی اور ہے
ہم سے اے داراؔ وہ کب ہوتے ہیں صاف
ان کے دل میں بد گمانی اور ہے
غزل تو بہت پھس پھسی تھی، مگر ولی عہد بہادر کی غزل تھی، بھلا کس کا جگر تھا جو تعریف نہ کرتا، البتہ غالبؔ اور مومنؔ چپ بیٹھے رہے۔ بعض قلعے والوں کو برا بھی معلوم ہوا، مگر ان دونوں کو خوب سمجھتے تھے کہ یہ سچی تعریف کرنے والے لوگ ہیں۔ ولی عہد تو ولی عہد، اگر بادشاہ سلامت کی بھی کمزور غزل ہو تو گردن تک نہ ہلائیں۔
القصہ خواص تو غزل پڑھ کر رخصت ہوا اور اب حاضرین جلسہ کے پڑھنے کی نوبت آئی۔ مرزا فخرو نے چوبدار کو اشارہ کیا، اس نے دونوں شمعیں لا، شامیانے کے سامنے رکھ دیں۔ صاحبِ عالم نے اپنی غزل نکالی اور ادھر ادھر نظر ڈال کر اور گردن کو ذرا جھکا کر کہا: بھلا میری کیا مجال ہے کہ آپ جیسے کاملین فن کے مقابلے میں کچھ پڑھنے کا دعویٰ کروں، البتہ جو کچھ برا بھلا کہا ہے، وہ بہ نظرِ اصلاح عرض کرتا ہوں:
غم وہ کیا ہے جو جاں گَزا نہ ہوا
درد وہ کیا جو لا دوا نہ ہوا
حال کھل جائیں غیر کے سارے
پر کروں کیا کہ تو مِرا نہ ہوا
درد کیا، جس میں کچھ نہ ہو تاثیر
بات کیا، جس میں کچھ مزا نہ ہوا
وہ تو ملتا، پر اے دلِ کم ظرف!
تجھ کو ملنے کا حوصلا نہ ہوا
شکوۂ یار اور زبانِ رقیب
میرا کیا ہے، ہوا ہوا نہ ہوا
تم رہو اور مجمعِ اغیار
کھیل ٹھہرا، کوئی گِلا نہ ہوا
پھر تمھارے ستم اٹھانے کو
رمزؔ اچھا ہوا، برا نہ ہوا
مرزا فخرو کی آواز تو اونچی نہ تھی مگر پڑھنے میں ایسا درد تھا کہ سن کر دل بے قابو ہو جاتا تھا۔ سارا مشاعرہ ’’واہ واہ اور سبحان اللہ‘‘ کے شور سے گونج رہا تھا۔ تیسرے شعر پر مرزا غالبؔ اور پانچویں پر حکیم مومنؔ خاں نے ایسے جوش سے واہ واہ کی کہ صف سے آگے نکل آئے۔ مرزا فخرو اپنی غزل پڑھتے رہے مگر ان دونوں کو انہی دو شعروں کی رٹ لگی رہی۔ پڑھتے اور مزے میں آ کر جھومتے رہے۔ جب غزل ختم ہوئی تو مرزا نوشہ نے کہا: سبحان اللہ! صاحبِ عالم سبحان اللہ! واہ کیا کہنا ہے، شعر یوں کہتے ہیں، مزا آ گیا۔ استاد ذوق بھی مسکرائے کہ چلو اسی بہانے سے میری تعریف ہو رہی ہے۔ مرزا فخرو نے اٹھ کر سلام کیا اور کہا: یہ آپ اصحاب کی بزرگانہ شفقت ہے جو اس طرح ارشاد ہوتا ہے ورنہ من آنم کہ من دانم۔
وہ جدھر نظر ڈالتے لوگ تعریفیں کرتے اور وہ جھک جھک کر سلام کرتے۔ جب محفل میں ذرا سکون ہوا تو مرزا فخرو نے چوبدار کو اشارہ کیا۔ اس نے شامیانے کے سامنے سے ایک شمع اٹھا سامنے کی صف میں میاں یل کے آگے رکھ دی۔ نام تو ان کا عبد القادر تھا، مگر شہر کا بچہ بچہ ان کو ’’میاں یل‘‘ کہتا تھا۔ ان کو اپنی طاقت پر اتنا غرور تھا کہ کسی پہلوان کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ جس اکھاڑے میں جاتے وہاں خم ٹھونک آتے اور کسی کو جواب میں خم ٹھونکنے کی ہمت نہ ہوتی۔ پہلوانی کی نسبت سے تخلص یلؔ رکھا تھا۔ مضمون بھی رندانہ باندھتے تھے۔ پڑھتے اس طرح تھے گویا میدانِ کار زار میں رجز پڑھ رہے ہیں۔ اس سے غرض نہ تھی کہ کوئی تعریف کرتا ہے یا نہیں، ان کو اپنے شعر پڑھنے سے کام تھا۔ غزل لکھی تھی:
کہہ دو رقیب سے کہ وہ باز آئے جنگ سے
ہرگز نہیں ہیں یار بھی کم اُس دبنگ سے
لب کا بڑھا دیا مزا خطِّ سبز نے
ساقی نے پشت دی مے صافی کو جنگ سے
دل اب کے بے طرح سے پھنسا زلفِ یار میں
نکلے یہ کیونکہ دیکھیے قیدِ فرنگ سے
آ جائیو نہ پیچ میں ظالم کے، دیکھنا
یاری تو تم نے کی ہے یلؔ اس شوخ و شنگ سے
ان کی غزل ختم ہوتے ہی چوبدار نے دوسری شمع اٹھا مرزا علی بیگ کے سامنے رکھ دی۔ یہ بڑے گورے چٹے نوجوان آدمی ہیں، کسرت کا بھی شوق ہے۔ نازنیںؔ تخلص کرتے ہیں۔ دہلی میں بس یہی ایک ریختی گو ہیں۔ اِدھر شمع رکھی گئی، اُدھر نواب زین العابدین خاں نے آواز دی: اوڑھنی لاؤ۔ ایک نوکر فوراً تاروں بھری، گہرے سرخ رنگ کی اوڑھنی لے کر حاضر ہوا۔ نازنیںؔ نے بڑے ناز و ادا سے اس کو اوڑھا۔ ایک پلو کا بُکّل مارا، دوسرا پلو سامنے پھیلا لیا اور خاصی بھلی چنگی عورت معلوم ہونے لگے۔ غزل ایسی لڑ لڑ کر اور اڑ اَڑ کر پڑھی کہ سارا مشاعرہ عش عش کرنے لگا۔ نرت ایسا پیارا کرتے تھے کہ کوئی بیسوا بھی کیا کرے گی۔ دوسرا شعر اس طرح پڑھا کہ گویا ’’باجی‘‘ کو جلانے کے لیے سب کچھ کرنے کو تیار ہیں۔ قلعے والوں کو تو اس غزل میں بڑا مزا آیا، مگر جو ریختے کے استاد تھے، وہ خاموش بیٹھے سنتے رہے۔ غزل یہ تھی:
ہوئی عشاق میں مشہور، یوسف سا جواں تاکا
بُوا! ہم عورتوں میں تھا بڑا دیدہ زلیخا کا
مجھے کہتی ہیں باجی تو نے تاکا چھوٹے دیور کو
نہیں ڈرنے کی میں بھی، ہاں نہیں تاکا تو اب تاکا
اگر اے نازنیںؔ تو دبلی پتلی کامنی سی ہے
چھریرا سا بدن نامِ خدا ہے تیرے دولھا کا
اب تو دونوں شمعیں اس طرح گردش کرنے لگیں کہ پہلے صف کے سیدھی جانب کا ایک شخص غزل پڑھتا تھا اور پھر الٹی طرف کا۔ اگلے صفحے پر ایک نقشہ دیتا ہوں، اس سے نشست کی کیفیت، پڑھنے والوں کا سلسلہ اور مشاعرے کا انتظام اچھی طرح سمجھ میں آ جائے گا:
نازنیں کے پڑھنے کے بعد دائیں طرف کی شمع ہٹ کر میاں عاشقؔ کے سامنے آئی۔ یہ بچارے ایک مزدور پیشہ آدمی ہیں۔ لکھنا پڑھنا بالکل نہیں جانتے۔ نہ کسی کے شاگرد ہیں، نہ کسی کے استاد۔ شعر اچھا خاصا کہتے ہیں۔ اس مشاعرے میں ایک شعر تو ایسا نکل گیا کہ سبحان اللہ! لکھا ہے:
فقط تو ہی نہ میرا اے بتِ خوں خوار دشمن ہے
ترے کوچے میں اپنا ہر در و دیوار دشمن ہے
غزل میں باقی سارے اشعار تو صرف بھرتی کے تھے مگر اِس شعر پر ہر طرف سے بڑی دیر تک واہ واہ ہوتی رہی۔ اُن کی غزل ختم ہونے پر بائیں طرف کی شمع اٹھا کر عبد اللہ خاں اوجؔ کے سامنے رکھ دی گئی۔ یہ بڑے پرانے چالیس پینتالیس برس کے مشّاق شاعر ہیں۔ مضمون کی تلاش میں ہر وقت سر گرداں رہتے ہیں، لیکن ڈھونڈ ڈھانڈ کر ایسے بلند مضامین اور نازک خیالات لاتے ہیں کہ ایک شعر تو کیا، ایک قطعے میں بھی اُن کی سمائی مشکل ہے اور کوشش یہ کرتے ہیں کہ ایک ہی شعر میں مضمون کھپا دیں، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مطلب کچھ کا کچھ ہو جاتا ہے۔ بھلا دوسروں کو تو اِن کے شعروں میں کیا مزہ آئے اور کوئی کیا داد دے، ہاں یہ خود ہی پڑھتے ہیں، خود ہی مزہ لیتے ہی اور خود ہی اپنی تعریف کر لیتے ہیں۔ غزل اس زور و شور سے پڑھتے ہیں کہ زور میں آ کر صفِ مجلس سے گزوں آگے نکل جاتے ہیں۔ ان کے شاگرد تو دو چار ہی ہیں، مگر استاد بھی اِن کو استاد مانتے ہیں۔ بھلا کس کا بل بوتا ہے جو ان کو استاد نہ کہہ کر لڑائی مول لے۔ ادھر انھوں نے شعر پڑھا، ادھر استاد ذوقؔ یا مرزا غالبؔ نے داد دی۔ داد دینے میں ذرا دیر ہوئی اور اِن کے تیور بدلے۔ اِن کے غصے کی بھلا کون تاب لا سکتا ہے، چارو ناچار تعریف کرنی پڑتی، جب کہیں جا کر یہ ٹھنڈے پڑتے۔ غزل ہوئی تھی:
دم کا جو دمدمہ یہ باندھے خیال اپنا
بے پل صراط اتریں، یہ ہے کمال اپنا
طفلی ہی سے ہے مجھ کو وحشت سرا سے نفرت
سُم میں گڑا ہوا ہے آہو کے نال اپنا
کسبِ شہادت اپنا ہے یاد کس کو قاتل
سانچے میں تیغ کے سر لیتے ہیں ڈھال اپنا
چیچک کے آبلوں کی میں باگ موڑتا ہوں
(رکھ کے) دیوی کے آستاں پر سیمیں ہلال اپنا
آخری شعر پر تو مرزا غالبؔ اچھل پڑے، کہنے لگے: واہ میاں اوجؔ! اس شعر کے دوسرے مصرعے نے تو غضب ڈھا دیا ہے۔ بھئی واللہ! الفاظ ’’رکھ کے‘‘ کیا خوب پھنسائے ہیں۔ یہ سب کافر ہیں جو تمھیں استاد کہتے ہیں، میاں تم تو شعر کے خدا ہو خدا۔ غرض سب استادوں نے تعریفوں کے پل باندھ دیے اور میاں اوجؔ پھول کر کپا ہوئے جاتے ہیں۔ جب ذرا سکون ہوا تو سیدھی طرف کی شمع کھسک کر محمد یوسف تمکینؔ کے سامنے آئی۔ اِن کی عمر کوئی پندرہ سولہ سال کی ہو گی۔ مدرسۂ دہلی میں طالبِ علم ہیں۔ غضب کی ظریفانہ طبیعت پائی ہے۔ بات کرنے میں منہ سے پھول جھڑتے ہیں۔ نازک نازک نقشہ، سانولا رنگ، بھرے ہوئے ہاتھ پاؤں۔ جوان ہوں گے تو بڑے خوب صورت آدمی نکلیں گے۔ غزل کہی تھی:
دوزخ بھی جس سے مانگتی ہر دم پناہ تھی
کس دل جلے کی بار خدایا یہ آہ تھی
خانہ خراب ہو ترا اے عشقِ بے حیا
آئین کون سا تھا، یہ کیا رسم و راہ تھی
تو نے جو دل کو میرے صنم خانہ کر دیا
رہتا خدا تھا جس میں، یہ وہ بارگاہ تھی
تمکیںؔ کو اک نگاہ میں دیوانہ کر دیا
جادو فریب آہ یہ کس کی نگاہ تھی
میاں تمکینؔ کا دل بڑھانے کو سب نے تعریف کی۔ قطعے کو کئی کئی دفعہ پڑھوایا۔ استاد احسانؔ نے کہا: میاں یوسف! کیا کہنا ہے۔ خوب کہتے ہو، کوشش کیے جاؤ، ایک نہ ایک دن استاد ہو جاؤ گے، مگر میاں کسی کے شاگرد ہو جاؤ، بے استاد رہے تو بھٹک نکلو گے۔ میاں تمکینؔ نے مسکرا کر کہا: استاد! میں کہیں آپ کے حکم سے باہر ہو سکتا ہوں، کل ہی ان شاء اللہ استاد اوجؔ کی خدمت میں حاضر ہو جاتا ہوں، استاد ذوق نے کہا: ہاں بھئی ہاں، خوب انتخاب کیا۔ بس یہ سمجھو کہ چند دنوں میں بیڑا پار ہے۔ یہاں یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ دوسری شمع غلام احمد تصویرؔ کے سامنے پہنچ گئی۔ ان کو میاں ببّن بھی کہتے ہیں۔ الف کے نام بے نہیں جانتے مگر طبیعت غضب کی پائی ہے۔ پہلے میاں تنویرؔ کے شاگرد تھے، بعد میں ان سے ٹوٹ کر استاد ذوقؔ سے آملے۔ بھاری بدن، مُنڈی ہوئی ڈاڑھی، چھوٹی چھوٹی مونچھیں، گہرا سانولا رنگ، جسم پر سوسی کا تنگ مہری کا پیجامہ، اوپر سوسی کا کرتا، کندھے پر لٹھے کا رومال، سر پر سوزنی کے کام کی گول ٹوپی۔ بے چارے نیچا بندی کے کام پر گزر اوقات کرتے ہیں۔ بڑے پر گو شاعر ہیں۔ لکھنا پڑھنا تو جانتے ہی نہیں، اس لیے جو کچھ کہتے ہیں دل و دماغ ہی میں ٹھونستے جاتے ہیں۔ یاد اس بلا کی ہے کہ ذرا چھیڑو تو ارگن کی طرح بجنے لگتے ہیں اور ختم کرنے کا نام نہیں لیتے۔ کلام ایسا پاکیزہ ہے کہ بڑے بڑے استادوں کے سر ہل جاتے ہیں۔ ان کو سنو تو یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ ایک اُمی پڑھ رہا ہے۔ بس یہی سمجھ لو کہ الشعراء تلامیذ الرحمن کی بہترین مثال ہیں۔ غزل کہی تھی:
ہجر کی شب تو سحر ہو یا رب!
وہ نہ آیا تو قیامت ہی سہی
جان بے کار تو اپنی نہ گئی
اے ستم گر! تری شہرت ہی سہی
مجھ سے اتنا بھی نہ کھنچیے صاحب!
آپ پر میری طبیعت ہی سہی
جذبۂ دل نہیں لایا تم کو
آپ کی خیر عنایت ہی سہی
ہر شعر پر واہ واہ اور سبحان اللہ کے شور سے محفل گونج جاتی تھی۔ غزل تمام ہوئی تو استاد ذوق نے حکیم مومن خاں کی طرف دیکھ کر کہا: خاں صاحب! یہ میاں ببّن بھی غضب کی طبیعت لے کر آئے ہیں۔ کہنے کو تو میرے شاگرد ہیں مگر اب تک ان کے کسی شعر میں اصلاح دینے کی مجھے تو ضرورت نہیں ہوئی۔ کل ایک غزل سنائی تھی، میں تو پھڑک گیا، ایک شعر تو ایسا بے ساختہ نکل گیا ہے کہ تعریف نہیں ہو سکتی۔ ہاں میاں ببّن! وہ کیا شعر تھا؟ میاں ببّن نے ذرا دماغ پر زور ڈالا اور شعر دماغ سے پھسل زبان پر آ گیا، مطلع تھا:
برچھی تری نگاہ کی پہلو میں آ لگی
پہلو سے دل میں، دل سے کلیجے میں جا لگی
اور شعر یہ تھا:
دامن پہ وہ رکھے نہ رکھے دل رُبا لگی
لیکن ہماری خاک ٹھکانے سے آ لگی
حکیم صاحب نے بہت تعریف کی اور کہا: میاں ببّن! یہ خدا کی دین ہے، یہ بات پڑھنے پڑھانے سے پیدا نہیں ہوتی۔ میاں خوش رہو، اس وقت دل خوش کر دیا۔
ان کے بعد شمع محمد جعفر تابشؔ کے سامنے آئی، یہ الہ آباد کے رہنے والے ہیں۔ بہت دنوں سے دلّی میں آ رہے ہیں۔ بچارے گوشہ نشین آدمی ہیں۔ شاعری سے دلی لگاؤ ہے۔ کوئی مشاعرہ نہیں ہوتا جہاں نہ پہنچتے ہوں۔ غزل میں دو شعر بہت اچھے تھے، وہی لکھتا ہوں:
کبھی بِن بادہ رہ نہیں سکتے
توبہ کچھ ہم کو سازگار نہیں
دل میں خوش ہیں عدو، پر اے تابشؔ
وہ ستم گر کسی کا یار نہیں
مقطعے کی کچھ ایسی پیاری بندش پڑی کہ سب کے منہ سے بے ساختہ واہ واہ نکلی۔ مفتی صدر الدین صاحب کی تو یہ حالت تھی کہ پڑھتے تھے اور جھومتے تھے۔
تابشؔ کے بعد الٹی جانب کی شمع میاں قلقؔ کے آگے گئی۔ خدا اِن سے محفوظ رکھے، بڑے چالاک آدمی ہیں۔ عبد العلی نام ہے، مدراس کے رہنے والے ہیں۔ کوئی تیس برس کی عمر ہے۔ بچپن ہی میں گھر سے نکل کھڑے ہوئے۔ حیدرآباد ہوتے ہوئے دہلی آئے۔ ہزاروں کو تعویذ گنڈے کے جال میں پھنسا کر پٹرا کر دیا۔ ان کی شکل سے لوگ گھبراتے ہیں۔ شاہ صاحب بنے پھرتے ہیں مگر دل کا خدا مالک ہے۔ شعر خاصا کہتے ہیں، لکھا تھا:
جامِ شراب سے خُمِ گردوں تو بن گیا
ساقی بنا دے ماہ، پیالہ اچھال کے
ہم مشربوں میں چل کے قلقؔ مے کشی کرو
جھگڑے وہاں نہیں ہیں حرام و حلال کے
یہ پڑھ چکے تو شمع منشی محمود جان اوجؔ کے سامنے گئی۔ ان کی غزل میں دو ہی شعر ایسے تھے جن کی تھوڑی بہت تعریف ہوئی، باقی سب بھرتی کے تھے:
آنے میں اُس جانِ جاں کے دیر ہے
کچھ مقدر کا ہمارے پھیر ہے
ہے یقین وہ جانِ جاں آتا نہیں
موت آنے میں پھر کیوں دیر ہے
ان کے بعد مرزا کامل بیگ کی باری آئی۔ یہ سپاہی پیشہ آدمی ہیں، کاملؔ تخلص کرتے ہیں۔ مشاعرے میں بھی اُوپچی بن کر آئے ہیں۔ غزل اس طرح پڑھی گویا فوج کی کمان کر رہے ہیں۔ دیکھ لو مضمون میں بھی وہی سپاہیانہ رنگ جھلک رہا ہے۔ ان کی غزل میں قطعہ بڑے مزے کا تھا، وہی لکھتا ہوں:
مژگاں سے گر بچے دل، ابرو کرے ہے ٹکڑے
یہ بات میں نے کہہ کر جب اُس سے داد چاہی
کہنے لگا کہ ترکش جس وقت ہووے خالی
تلوار پھر نہ کھینچے تو کیا کرے سپاہی
اب حکیم سید محمد تعشّق کے پڑھنے کا نمبر آیا۔ یہ بڑے پائے کے ادیب ہیں۔ تریسٹھ چونسٹھ برس کی عمر ہے، حکمت میں اپنا جواب نہیں رکھتے۔ غرض کیا کہوں، ایک جامعِ کمالات شخص ہیں، مگر اپنے آپ کو بہت دور کھینچتے ہیں۔ اچھا شعر سنتے ہیں تو بے تاب ہو جاتے ہیں، چاہتے ہیں کہ جس طرح میں تعریف کرتا ہوں اسی طرح دوسرے بھی میرے شعر کی تعریف کریں۔ شعر برا نہیں کہتے، مگر ایسا بھی نہیں ہوتا کہ مشاعرہ چمک اٹھے اور ہر شخص کے منہ سے بے ساختہ واہ واہ نکل جائے۔ آپ خود ہی اِن کا کلام دیکھ لیجیے:
تجھ کو اِس میری آہ و زاری پر
رحم اے فتنہ گر نہیں آتا
وعدۂ شام تو کیا لیکن
کچھ وہ آتا نظر نہیں آتا
تیرے بیمار کا ہے یہ عالم
ہوش دو دو پہر نہیں آتا
تعریف تو ہوئی مگر کچھ ان کے دل کو نہ لگی، اس لیے ذرا آزردہ سے ہو گئے۔ اِن کے بعد شمع میر حسین تجلیؔ کے سامنے آئی۔ یہ میر تقی میرؔ کے پوتے ہیں۔ بڑے ظریف اور نکتہ سنج آدمی ہیں۔ کلام میں وہی میر صاحب کا رنگ جھلکتا ہے، زبان پر جان دیتے ہیں۔ غزل تو چھوٹی سی ہوتی ہے مگر جو کچھ کہتے ہیں اچھا کہتے ہیں۔ کیوں نہ ہو، آخر کس کے پوتے ہیں:
مری وفا پہ تجھے روز شک تھا اے ظالم!
یہ سر، یہ تیغ ہے، لے اب تو اعتبار آیا
یہ شوق دیکھو پسِ مرگ بھی تجلیؔ نے
کفن میں کھول دیں آنکھیں، سنا جو یار آیا
دوسرے شعر پر وہ تعریف ہوئی کہ میاں تجلی کی باچھیں کھل گئیں۔
میاں تجلی پڑھ چکے تو حکیم سکھانند رقمؔ کی باری آئی۔ اِن کو میں حکیم مومن خاں صاحب کے مکان پر دیکھ چکا تھا۔ کلام تو ایسا اچھا نہیں ہوتا مگر پڑھتے خوب ہیں۔ جہاں کسی نے ذرا بھی تعریف کی اور انھوں نے سلام کا تار باندھ دیا، غزل لکھی تھی:
بجھانا آتشِ دل کا بھی کچھ حقیقت ہے
ذرا سا کام تجھے چشمِ تر نہیں آتا
عدم سے کوچۂ قاتل کی راہ ملحق ہے
گیا اُدھر جو گزر، پھر ادھر نہیں آتا
ہو خاک چارہ گری اس مریض کی تیرے
نظر میں تجھ سا کوئی چارہ گر نہیں آتا
تیسرا شعر حکیم مومنؔ خاں صاحب کے رنگ کا تھا، اس کی انھوں نے بہت تعریف کی، مگر اس کے ساتھ یہ بھی کہا: میاں رقمؔ! یا تو تم حکمت ہی کرو یا شعر ہی کہو، ان دونوں چیزوں کو ملا کر چلانا ذرا مشکل کام ہے۔
شمع کا شیخ نیاز احمد جوشؔ کے سامنے جانا تھا کہ شاگردانِ ذوق ذرا سنبھل بیٹھے۔ جوشؔ کو استاد ذوق بہت عزیز رکھتے ہیں۔ ان کی عمر اٹھارہ انیس سال کی ہے، مگر بلا کے طبّاع اور ذہین ہیں۔ ان کی سخن گوئی اور سخن فہمی کی قلعے بھر میں دھوم ہے، مگر مشاعرے میں انھوں نے جو غزل پڑھی وہ تو مجھے پسند نہ آئی، ہاں قلعے والوں نے واہ واہ کے شور سے مکان سر پر اٹھا لیا۔ استاد ذوقؔ نے بھی سبحان اللہ! سبحان اللہ! کہہ کر شاگرد کا دل بڑھایا۔ غزل دیکھ لیجیے، ممکن ہے کہ میں نے ہی غلط اندازہ لگایا ہو:
کیوں کر وہ ہاتھ آئے کہ یاں زور و زر نہیں
لے دے کے ایک آہ، سو اُس میں اثر نہیں
قسمت سے درد بھی تو ہوا وہ ہمیں نصیب
جس درد کا کہ چارہ نہیں، چارہ گر نہیں
قسمت ہی میں نہیں ہے شہادت، وگرنہ یاں
وہ زخم کون سا ہے کہ جو کارگر نہیں
سجدے میں کیوں پڑا ہے، ارے اٹھ شراب پی
اے جوشؔ مے کدہ ہے، خدا کا یہ گھر نہیں
آپ نے غزل ملاحظہ کر لی۔ میں تو اب بھی یہی کہوں گا کہ کوئی شعر بھی ایسا نہیں جو تعریف کے قابل ہو۔ اب زبردستی کی تعریفیں کرنا دوسری بات ہے۔
ان کے بعد مولوی امام بخش صہبائی کے بڑے فرزند محمد عبد العزیز کا نمبر آیا۔ یہ عزیزؔ تخلص کرتے ہیں۔ غزل خوب کہتے ہیں۔ کیوں نہ ہو بڑے باپ کے بیٹے ہیں۔ ہائے کیا کیا شعر نکالے ہیں، لکھتے ہیں:
جوں شمع شغل تیرے سراپا نیاز کا
جلنا جو سوز کا ہے، تو رونا گداز کا
کج فہمیوں سے خلق کی دیکھا کہ کیا ہوا
منصور کو حریف نہ ہونا تھا راز کا
ہم عاصیوں کا بارِ گنہ سے جھکا ہے سر
اور خلق کو گمان ہے ہم پر نماز کا
مغرور تھا ہی، اور وہ مغرور ہو گیا
اِس میں گلہ نہیں مجھے آئینہ ساز کا
اوروں کے ساتھ لطف سے تھا صورتِ نیاز
یاں بڑھ گیا دماغ تغافل سے ناز کا
ذرا سچ کہیے گا ساری غزل مرصّع ہے یا نہیں؟ ہاں اس غزل کی جو کچھ تعریف ہوئی بجا ہوئی۔ استاد ذوقؔ نے بھی کہا: بھئی صہبائی! تمھارا یہ لڑکا غضب کا نکلا ہے، خدا اس کی عمر میں برکت دے، ایک دن بڑا نام پیدا کرے گا۔ واہ میاں صاحب زادے واہ! کیا کہنا ہے، دل خوش ہو گیا۔ کیوں نہ ہو، ایسوں کے ایسے ہی ہوتے ہیں۔ میاں عزیزؔ نے اٹھ کر سلام کیا اور بیٹھ گئے۔
میاں عزیزؔ کے بعد شمع خواجہ معین الدین یکتاؔ کے سامنے آئی۔ اِن کا کیا کہنا۔ سرکار سے خطابِ خانی پایا ہے، کسی کو خاطر میں ہی نہیں لاتے۔ کبھی کسی کے شاگرد ہوتے ہیں، کبھی کسی کے۔ پہلے احسانؔ سے تلمذ تھا، آج کل مرزا غالب کی طرف ڈھلک گئے ہیں۔ ایسے متلون مزاجوں کو نہ کبھی کچھ کہنا آیا ہے، نہ آئے گا۔ میرا دل بڑا خوش ہوا کہ کسی نے تعریف نہیں کی۔ بڑے جلے ہوں گے۔ بھلا ایسے شعروں کی کوئی خاک تعریف کرتا:
اے آہِ شعلہ زا! یہ خس و خار بھی نہیں
نو آسماں ہیں، دو بھی نہیں، چار بھی نہیں
ہے کس کو تابِ شکوۂ دشمن کہ ضعف سے
لب پر ہمارے تذکرۂ یار بھی نہیں
جینا فراقِ یار میں وعدے کی لاگ پر
آسان گر نہیں ہے تو دشوار بھی نہیں
ہاں اب جس کے سامنے شمع آئی ہے، وہ شاعر ہے۔ یہ کون ہیں؟ مرزا حاجی بیگ شہرتؔ۔ گورا رنگ، میانہ قد، کوئی ۳۰، ۳۲ برس کی عمر، بڑے بنے سنورے رہتے ہیں۔ پہلے انہی کے مکان پر مشاعرہ ہوتا تھا، اب تھوڑے دنوں سے بند ہے۔ مفتی صدر الدین صاحب کے شاگردِ رشید ہیں۔ کہتے بھی خوب ہیں اور پڑھتے بھی خوب ہیں۔ بڑی پاٹ دار آواز ہے۔ پڑھنے کا ڈھنگ ایسا ہے کہ ایک ایک لفظ دل میں اترتا جاتا ہے، ہر شعر پر تعریفیں ہوئیں اور کیوں نہ ہوتیں، ہر شعر تعریف کے قابل تھا۔ غزل یہ ہے:
ایک دن، دو دن، کہاں تک، تو بھی کچھ انصاف کر
یہ تو جلنا روز کا اے سوزِ ہجراں ہو گیا
ہے ترقی جوہرِ قابل ہی کے شایاں کہ میں
خاک کا پتلا بنا، پتلے سے انساں ہو گیا
کفر و دیں میں تھا نہ کچھ عُقدہ بہ جز بندِ نقاب
اُس کے کھلتے ہی یہ کارِ مشکل آساں ہو گیا
پہلے دعوائے خدائی اُس بتِ کافر کو تھا
کچھ درستی پر جو آج آیا تو انساں ہو گیا
آخری شعر پر تو مرزا غالب کی یہ حالت تھی کہ گویا بالکل مست ہو گئے ہیں۔ رانوں پر ہاتھ مارتے اور کہتے: واہ میاں شہرتؔ واہ! کمال کر دیا! شعر کیا ہے، اعجاز ہے۔ یہ ایک شعر بڑے بڑے دیوانوں پر بھاری ہے، ہاں کیا کہا ہے سبحان اللہ!
پہلے دعوائے خدائی اس بتِ کافر کو تھا
کچھ درستی پر جو آج آیا تو انساں ہو گیا
غرض اس شعر نے ایک عجیب کیفیت محفل میں پیدا کر دی تھی۔ لوگ خود پڑھتے، ایک دوسرے کو سناتے، مزے لے لے کر جھومتے اور جوش میں واہ واہ اور سبحان اللہ کے نعرے مارتے۔ بڑی دیر میں جا کر محفل میں ذرا سکون ہوا تو شمع نوازش حسین خاں تنویرؔ کے سامنے گئی۔ یہ جوان آدمی ہیں، کوئی بتیس تینتیس برس کے ہوں گے۔ بادشاہ سلامت ان کو بہت عزیز رکھتے ہیں۔ میاں شہرت کے شعر نے وہ جوش پیدا کر دیا تھا کہ ان کی غزل کسی نے بھی غور سے نہیں سنی۔ غزل بھی معمولی تھی، صرف یہ قطعہ خاصا تھا:
جان کر دل میں مجھے اپنا مریضِ تپِ غم!
کہتا لوگوں سے بظاہر بتِ عیّار ہے کیا
رنگِ رخ زرد ہے، تر چشم ہے، لب پر دمِ سرد
پوچھنا اِس سے کہ اس شخص کو آزار ہے کیا
یہ پڑھ چکے تو شمع میر بہادر علی حزیںؔ کے سامنے رکھی گئی۔ یہ بڑے سنجیدہ، متین اور وضع دار آدمی ہیں۔ عارفؔ کے شاگرد ہیں، ان کا ایک شعر بڑے مزے کا ہے:
سبو سے منہ لگائیں گے، اب اتنا صبر ہے کس کو
کہ بھریے خم سے مے شیشے میں اور شیشے سے ساغر میں
جو غزل انھوں نے اس روز مشاعرے میں پڑھی، اس کے یہ دو تین شعر اچھے تھے:
دنیا کی وسعتیں ترے گوشے میں آ گئیں
اللہ ری وسعتیں تری اے تنگنائے دل
جل جل کے آخرش تپشِ غم کے ہاتھ سے
اک داغ رہ گیا مرے پہلو میں، جائے دل
دیکھا وہ اپنی آنکھ سے جو کچھ سنا نہ تھا
اور دیکھیے حزیںؔ ابھی کیا کیا دکھائے دل
مقطعے کو سب نے پسند کیا اور واقعی ہے بھی اچھا۔
ان کے بعد شمع ایسے شخص کے سامنے آئی جو خود شاعر، جس کا باپ شاعر، جس کا بھائی شاعر، جس کا سارا خاندان شاعر۔ وہ کون؟ میاں باقر علی جعفری۔ فخر الشعرا نظام الدین ممنونؔ کے چھوٹے بھائی۔ ملک الشعرا قمر الدین منتؔ کے چھوٹے بھائی۔ ان کی غزل میں زور نہ ہو گا تو اور کس کی غزل میں ہو گا۔ دو شعر سنیے، کہتے ہیں:
تیغ یوں دل میں خیالِ نگہِ یار نہ کھینچ
ناخدا ترس! تو کعبے میں تو تلوار نہ کھینچ
بے سر و پا چمن و دشت میں عالم کے نہ پھر
نازِ ہر گل نہ اٹھا، منتِ ہر کار نہ کھینچ
غزل کی جیسی تعریف چاہیے، ویسی تعریف نہیں ہوئی، وجہ یہ ہے کہ یہ رنگ اب دہلی سے اٹھتا جاتا ہے، اب تو روز مرہ پر لوگ جان دیتے ہیں، اُس میں اگر مضمون پیدا ہو گیا تو سبحان اللہ! مرزا غالب اس رنگ کے بڑے دلدادہ تھے، وہ بھی اب اس کو چھوڑتے جا رہے ہیں۔
اس کے بعد منشی محمد علی تشنہؔ کے پڑھنے کی باری تھی۔ چوبدار اُن کے سامنے شمع رکھنے میں ذرا ہچکچایا۔ یہ ننگ دھڑنگ مزے میں دو زانو بیٹھے جھوم رہے تھے۔ چوبدار نے مرزا فخرو کی طرف دیکھا، انھوں نے آنکھ سے اشارہ کیا کہ رکھ دے۔ اس نے شمع رکھ دی۔ جب شمع کی روشنی آنکھوں پر پڑی تو میاں تشنہؔ نے بھی آنکھیں کھولیں۔ کچھ سمجھ کر پھونک مار شمع گل کر دی اور کہا: میں بھی کچھ عرض کروں۔ سب نے کہا: ضرور فرمائیے۔ انھوں نے نہایت آزادانہ لہجے میں کچھ گاتے ہوئے، کچھ پڑھتے ہوئے یہ غزل سنائی:
آنکھ پڑتی ہے کہیں، پاؤں کہیں پڑتا ہے
سب کی ہے تم کو خبر، اپنی خبر کچھ بھی نہیں
شمع ہے، گل بھی ہے، بلبل بھی ہے، پروانہ بھی
رات کی رات یہ سب کچھ ہے، سحر کچھ بھی نہیں
حشر کی دھوم ہے، سب کہتے ہیں یوں ہے، یوں ہے
فتنہ ہے اک تری ٹھوکر کا، مگر کچھ بھی نہیں
نیستی کی ہے مجھے کوچۂ ہستی میں تلاش
سیر کرتا ہوں اُدھر کی جدھر کچھ بھی نہیں
ایک آنسو بھی اثر جب نہ کرے اے تشنہ!
فائدہ رونے سے اے دیدۂ تر کچھ بھی نہیں
میں کیا بتاؤں کہ اس غزل کا کیا اثر ہوا! ایک سناٹا تھا کہ زمین سے آسمان تک چھایا ہوا تھا۔ غزل کا مضمون، آدھی رات کی کیفیت، پڑھنے والے کی حالت، غرض یہ معلوم ہوتا تھا کہ ساری محفل کو سانپ سونگھ گیا ہے۔ اِدھر یہ عالم طاری تھا، اُدھر میاں تشنہؔ ہاتھ جھٹکتے ہوئے اور ’’کچھ بھی نہیں، کچھ بھی نہیں‘‘ کہتے ہوئے اسی عالم بے خودی میں دروازے سے باہر نکل گئے۔ ان کی ’’کچھ بھی نہیں، کچھ بھی نہیں‘‘ کی آواز بڑی دیر تک کانوں میں گونجتی رہی۔ جب ذرا طبیعتیں سنبھلیں تو سب کے منہ سے بے اختیار یہی نکلا کہ ’’واقعی کچھ بھی نہیں۔‘‘
مرزا فخرو نے شمع منگا کر روشن کی اور کہا: ہاں صاحب پھر سے شروع کیجیے۔ شمع حافظ محمد حسین بسملؔ کے سامنے رکھی گئی۔ بھلا تشنہؔ کے بعد ان کا کیا رنگ جمتا۔ اول تو یہ نو مشق ہیں، مرزا قادر بخش صابرؔ سے اصلاح لیتے ہیں۔ دوسرے غزل میں بھی کوئی خاص بات نہ تھی، البتہ مقطع اچھا تھا، غزل ملاحظہ ہو:
دل تو نے ہم سے او بتِ کافر اٹھا لیا
اس نازکی پہ بوجھ یہ کیوں کر اٹھا لیا
بارِ گرانِ عشق فلک سے نہ اٹھ سکا
کیا جانے میرے دل نے یہ کیوں کر اٹھا لیا
پیر مُغاں نے بسملِؔ مے کش کو دیکھ کر
شیشہ بغل میں، ہاتھ میں ساغر اٹھا لیا
بہر حال کسی نے سنا کسی نے نہیں سنا، کچھ تھوڑی بہت تعریف بھی ہوئی اور شمع میر حسین تسکینؔ کے پاس پہنچ گئی۔ ان کی کوئی چالیس برس کی عمر ہو گی۔ صہبائی کے شاگرد ہیں، مومن سے بھی اصلاح لی ہے۔ اِن کا خاندان دہلی میں بہت مشہور ہے۔ انہی کے دادا میر حیدر نے میر حسین علی وزیرِ فرخ سیر کو مارا تھا۔ سپاہی پیشہ آدمی ہیں۔ شعر بھی برا نہیں کہتے، لکھا تھا:
ہزار طرح سے کرنی پڑی تسلّیِ دل
کسی کے جانے سے گو خود نہیں قرار مجھے
شبِ وصال میں سننا پڑا فسانۂ غیر
سمجھتے کاش نہ اپنا وہ راز دار مجھے
وہ اپنے وعدے پہ محشر میں جلوہ فرما ہیں
نہیں ہے ضعف سے انبوہ میں گزار مجھے
مرے قصور سے دیدار میں ہوئی تاخیر
نہ دیکھنا تھا تماشائے روزگار مجھے
مزے یہ دیکھے ہیں آغازِ عشق میں تسکیںؔ
کہ سوجھتا نہیں اپنا مآلِ کار مجھے
غرض اس غزل نے مشاعرے کا رنگ پھر درست کر دیا اور لوگ ذرا سنبھل کر ہو بیٹھے۔ استاد احسانؔ کے شاگرد خواجہ غلام حسین بیدلؔ کے سامنے شمع آئی، انھوں نے یہ غزل پڑھی:
نگہ کی، چشم کی، زلفِ دوتا کی
سہے اک دل جفا کس کس بلا کی
کب اس گُل کی گلی تک جا سکے ہے
ہوا باندھی ہے یاروں نے ہوا کی
بتوں سے ملتے ہو راتوں کو بیدلؔ
تمھیں بھی دن لگے، قدرت خدا کی
ساری کی ساری غزل پھس پھسی تھی، بھلا اس کی کون تعریف کرتا۔ ہاں اس کے بعد جو غزل محمد حسین صاحب تائبؔ نے پڑھی، اس میں مزہ آ گیا۔ تائبؔ مولانا شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ کے بھتیجے ہیں اور فخر الشعرا نظام الدین ممنونؔ کے شاگرد۔ چھوٹی بحر میں ایسی غزل لکھتے ہیں کہ سبحان اللہ اور پڑھنا تو ایسا ہے کہ تعریف نہیں ہو سکتی۔ غزل تھی:
پھر کتاں وار جگر چاک ہوا
پھر کوئی ماہ لقا یاد آیا
کہیے اُس بت کو مشابہ کس کے
دیکھ کر جس کو خدا یاد آیا
عہدِ پیری میں جوانی کی امنگ
آہ کس وقت میں کیا یاد آیا
دوسرے اور تیسرے شعر پر تو یہ حال تھا کہ لوگ تعریفیں کرتے کرتے اور میاں تائبؔ سلام کرتے کرتے تھکے جاتے تھے۔ جب ذرا جوش کم ہوا تو شمع استاد ذوق کے استاد غلام رسول شوقؔ کے سامنے آئی۔ بچارے بڈھے آدمی ہیں، شاہ نصیر کے شاگرد ہیں۔ مسجد عزیز آبادی میں امامت کرتے ہیں۔ شروع شروع میں استاد ذوق نے اِن کو اپنا کلام دکھایا تھا، اسی برتے پر یہ اپنے آپ کو ان کا استاد کہا کرتے ہیں اور اب بھی چاہتے ہیں کہ ذوق اسی طرح آ کر مجھ سے اصلاح لیا کریں۔ مجھے تو کچھ سٹھیائے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ غزل جو پڑھی تو واقعی اس کا مطلع بڑے زور کا تھا، باقی اللہ اللہ خیر سلّا:
لکھا ہوا ہے یہ اُس مہ جبیں کے پردے پر
نہیں ہے کوئی اب ایسا زمیں کے پردے پر
استاد ذوق کے چھیڑنے کو غالبؔ، مومنؔ، آزردہؔ، صہبائی، غرض جتنے استادانِ فن تھے، سب نے میاں شوقؔ کی بڑی واہ واہ کی۔ وہ سمجھے میرے کلام کی تعریف ہو رہی ہے، یہ نہ سمجھے کہ بنا رہے ہیں۔ ذرا کسی نے واہ واہ کی اور انھوں نے استاد ذوق کی طرف دیکھ کر کہا: دیکھا! شعر یوں کہتے ہیں۔ وہ بے چارے ہنس کر خاموش ہو جاتے۔ ان کے ایک آدھ شاگرد نے جواب دینا بھی چاہا مگر انھوں نے روک دیا۔
خدا خدا کر کے ان سے فراغت ہوئی تو شمع آزادؔ کے سامنے آئی۔ ان کا نام الیگزینڈر ہیڈلے ہے۔ قوم کے فرانسیسی ہیں۔ دہلی میں پیدا ہوئے، یہیں تربیت پائی اور یہیں سے توپ خانے کے کپتان ہو کر الور گئے۔ کوئی اکیس سال کی عمر ہے۔ ڈاکٹری بھی جانتے ہیں، شعر و سخن کا بہت شوق ہے، عارفؔ کے شاگرد ہیں۔ جہاں مشاعرے کی خبر سنی اور دہلی میں آ موجود ہوئے۔ لباس تو وہی فوجی ہے، مگر بات چیت اردو میں کرتے ہیں۔ ایسی صاف اردو بولتے ہیں جیسے کوئی دہلی والا بول رہا ہے۔ شعر بھی کچھ برے نہیں ہوتے۔ ایک فرانسیسی کا اردو میں ایسے شعر کہنا واقعی کمال ہے۔
غزل ملاحظہ ہو:
وہ گرم روِ راہِ معاصی ہوں جہاں میں
گرمی سے رہا نام نہ دامن میں تَری کا
کچھ پاؤں میں طاقت ہو تو کرو دشت نَوَردی
ہاتھوں سے مزہ دیکھ ذرا جیب دری کا
چہلم کو عیادت کے لیے وہ مری آئے
آزادؔ! ٹھکانا بھی ہے اس بے خبری کا
آزادؔ کے بعد شمع دوسری طرف میر شجاعت علی تسلّی کے پاس آئی۔ بچارے غریب صورت، فرسودہ لباس، کوئی چونسٹھ پینسٹھ برس کے آدمی ہیں، شاہ نصیر کے بڑے چاہیتے شاگردوں میں تھے۔ اپنے زمانے کے جراتؔ سمجھے جاتے تھے۔ اب بہت دنوں سے دنیا سے کنارہ کشی کر کے قدم شریف میں جا رہے ہیں۔ مشاعرے کی کشش کبھی کبھی ان کو دہلی کھینچ لاتی ہے۔ پڑھنے کا انداز بھی نرالا ہے۔ اس طرح پڑھتے ہیں جیسے کوئی باتیں کر رہا ہو۔ غزل دیکھ لیجیے، یہ معلوم ہوتا ہے کہ عاشق و معشوق میں سوال و جواب ہو رہے ہیں:
کیسی ٹھوکر جڑی ہے حضرتِ دل
پاؤں پر اس کے سر دھرو تو سہی
جب کہا میں نے، تم پہ مرتا ہوں
تم گلے سے مرے لگو تو سہی
بولے وہ، کیا مزے کی باتیں ہیں
خیر ہے کچھ، پرے ہٹو تو سہی
غیر کی کل وہ لگ کے چھاتی سے
مجھ سے کہنے لگے، سنو تو سہی
اس لیے اس کے ہم گلے سے لگے
کہ ذرا جی میں تم جلو تو سہی
اس غزل کی جیسی تعریف ہونی چاہیے تھی، ویسی نہیں ہوئی، کیوں کہ اب وہ وقت آ گیا تھا کہ نیند کے خمار سے سر میں چکر آنے لگے تھے اور برے بھلے کی تمیز دشوار ہو گئی تھی۔ اس کے بعد جو دو ایک غزلیں ہوئیں وہ بس ہو گئیں، نہ کسی نے شوق سے سنا اور نہ مزہ آیا۔
میاں تسلیؔ کے بعد شورؔ نے غزل پڑھی۔ یہ کوئل کے رہنے والے ہیں۔ قوم کے عیسائی ہیں اور نام جارج پیس ہے، یہ معلوم نہیں کس کے شاگرد ہیں۔ ہاں اکثر دہلی آتے جاتے رہتے ہیں۔ جو کچھ کہہ لیتے ہیں، بہت غنیمت ہے:
عاجز تھا اپنی جان سے ایسا ترا مریض
دیکھے سے جس کے حالتِ عیسی تباہ تھی
بل بے یہ بے خودی کہ خودی سے بھلا دیا
ورنہ یہ زیست، مرگ کی اپنی گواہ تھی
دیر و حرم میں تو نہ دے ترجیح زاہدا
جس سمت سر جھکا، وہی بس سجدہ گاہ تھی
ان کے بعد محمد عسکری نالاں کی باری آئی۔ بھلا اس نوے برس کے بڈھے کی آواز نیند کے خمار میں کسی کو کیا سنائی دیتی۔ مصحفی کے سب سے پہلے شاگرد ہیں۔ اب تو ان کو بس تبرک سمجھ لو۔ شعر بھی وہی باوا آدم کے وقت کے کہتے ہیں:
سحر کے ہونے کا دل کو خیال رہتا ہے
شبِ وصال بھی دل کو ملال رہتا ہے
وہ بد گماں ہوں کہ اُس بت کے سایے پر بھی مجھے
رقیب ہی کا سدا احتمال رہتا ہے
میاں نالاںؔ نے پڑھنا ختم ہی کیا تھا کہ شمع میر صاحب کے سامنے پہنچ گئی۔ شمع کا رکھنا تھا کہ ہر شخص سنبھل کر بیٹھ گیا۔ بعض نے انگلیوں سے آنکھیں مل ڈالیں، بعض نے کرتے کے دامن سے رگڑیں۔ بعض اٹھ اور پانی کا چھپکا منہ پر مار آ بیٹھے۔ کیسی نیند اور کہاں کا سونا۔ میرؔ صاحب کے نام نے سب کو چاق چوبند کر دیا۔ مرزا فخرو اب تک ایک پہلو پر بیٹھے تھے، انھوں نے بھی پہلو بدلا۔ استادانِ فن کے چہروں پر مسکراہٹ آئی، نوجوانوں میں سرگوشیاں ہونے لگیں۔ میر صاحب بھی صف سے کچھ آگے نکل آئے۔ مرزا فخرو نے کہا: میر صاحب! یہ ٹھیک نہیں۔ آپ تو بیچ میں آ کر پڑھیے، یہ کہہ کر چوبدار کو اشارہ کیا، اس نے دونوں شمعیں اٹھا کر وسطِ صحن میں رکھ دیں۔ میرؔ صاحب بھی اپنی جگہ سے اٹھ، شامیانے کے عین سامنے آ بیٹھے۔ بھلا دہلی میں کون ہے جو میر صاحب کو نہیں جانتا۔ کون سا مشاعرہ ہے جو ان کی وجہ سے چمک نہیں اٹھتا۔ کون سی محفل ہے، جہاں ان کے قدم کی برکت سے رونق نہیں آ جاتی۔ ان کا نام تو شاید گنتی کے چند لوگ جانتے ہوں، ہم نے جب سنا ان کا نام میر صاحب ہی سنا۔ کوئی ستر برس کی عمر ہے، بڑے سوکھے سہمے آدمی ہیں، غلافی آنکھیں، توتے کی چونچ جیسی ناک، بڑا دہانہ، لمبی ڈاڑھی، بٹیا سا سر، خشخاشی بال، گوری رنگت، اونچا قد۔ غرض ان کے حلیے کو دہلی کے کسی بچے سے بھی پوچھیے تو پورا پورا بتا دے، نہایت صاف ستھرا لباس، سفید ایک بر کا پیجامہ، سفید کرتا، اس پر سفید انگرکھا۔ سر پر ارخ چیں (عرق چیں) ٹوپی، چہرے پر متانت بلا کی تھی، مگر جب غصہ آتا تھا تو پھر کسی کے سنبھالے نہ سنبھلتے تھے۔ چھوٹا ہو یا بڑا، کوئی ان سے بغیر مذاق بات نہیں کرتا تھا اور یہ بھی تڑ سے وہ جواب دیتے تھے کہ منہ پھر جائے۔ اِس سے ان کو غرض نہ تھی کہ جواب ہو بھی گیا یا نہیں۔ مشاعرے میں میاں تمکینؔ سے لے کر بادشاہ سلامت تک اِن کو چھیڑتے تھے۔ انھوں نے نہ اِن کا برا مانا نہ اُن کا۔ جواب دینے میں نہ اِن سے رکے نہ اُن سے۔ غزل ہمیشہ فی البدیہہ پڑھتے تھے۔ لکھ کر لانے کی کبھی تکلیف گوارا نہ کی۔ غزل میں مصرعوں کے توازن کی ضرورت ہی نہ تھی، صرف قافیے اور ردیف سے کام تھا۔ جو کچھ کہنا ہوا، نہایت اطمینان سے نثر میں بیان کرنا شروع کیا۔ بیچ میں دوسروں کے اعتراضوں کا جواب بھی دیتے رہے۔ جب کہتے کہتے تھک گئے تو ردیف اور قافیہ لا، شعر کو ختم کر دیا۔ انھوں نے شعر پڑھنا شروع کیا اور چاروں طرف سے اعتراضوں کی بوچھاڑ ہو گئی۔ یہ بھلا کب دبنے والی آسامی ہیں، چو مکھا لڑتے۔ جب زبان سے نہ دبا سکتے تو زور میں آ کر کھڑے ہو جاتے۔ یہ کھڑے ہوئے اور کسی نہ کسی نے ان کو بٹھا دیا، معترض کو ڈانٹا، میر صاحب کا دل بڑھایا اور پھر وہی اعتراضوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ اور تو اور مولوی مملوک العلی صاحب کو ان سے الجھنے میں مزہ آتا تھا۔ یہ بھی مولوی صاحب کی وہ خبر لیتے تھے کہ اگر ان کا کوئی شاگرد سن لیتا تو مدرسے سے مولوی صاحب کا سارا رعب داب رخصت ہو جاتا۔
میر صاحب نے شمع کے سامنے بیٹھتے ہی ساری محفل پر ایک نظر ڈالی اور کہا: حضرات! آج میں یہاں ہدہد کی شان میں ایک قصیدہ سناؤں گا، اپنے منہ میاں مٹھو یہ اپنی تعریف خود تو بہت کر چکے ہیں اب ذرا دل لگا کر اپنی ہجو بھی سن لیں۔ میاں ہدہد سے سب جلے بیٹھے تھے، اب جو سنا کہ ان کی ہجو ہو رہی ہے اور پھر وہ بھی میر صاحب کے منہ سے، سب نے کہا: ہاں میر صاحب ضرور فرمائیے۔ میاں ہدہد، حکیم آغا جان عیشؔ کے پٹھو تھے اور انہی کے بل پر پھدکتے تھے۔ اب جو حکیم صاحب نے سنا کہ میر صاحب ہدہد کی ہجو پر اتر آئے ہیں، تو بہت پریشان ہوئے۔ ڈر تھا کہ کہیں مجھ کو بھی نہ لپیٹ لیں۔ دوسرا کوئی ہجو کرے تو جواب بھی دیا جائے۔ بھلا میر صاحب کی بحرِ طویل کا کون جواب دے سکتا ہے۔ اور تو کچھ بن نہ پڑا، میاں ہدہد کو گاؤ تکیے کے پیچھے غائب کر دیا۔ اب جو میر صاحب ادھر نظر ڈالتے ہیں تو ہدہد ندارد ہیں۔ بہت گھبرائے، ادھر دیکھا ادھر دیکھا، جب کسی طرف نظر نہ آئے تو کہا: ہجو ملتوی کر کے اب میں غزل پڑھتا ہوں۔ سب نے کہا: ہیں میر صاحب! یہ آپ نے ارادہ کیوں تبدیل فرما دیا، پڑھیے میر صاحب، خدا کے لیے پڑھیے، سوداؔ کے بعد ہجو تو اردو زبان سے اٹھ ہی گئی۔ اگر آپ بھی اس طرف توجہ نہ کریں تو غضب ہو جائے گا، زبان ادھوری رہ جائے گی۔ میر صاحب نے کہا: نا بھئی، میاں ہدہد ہوتے تو ہم کو جو کہنا تھا، ان کے منہ پر کہتے۔ ان کے پیٹھ پیچھے ان کو کچھ کہنا ہجو نہیں، غیبت ہے اور میں غیبت کرنے والوں پر لعنت بھیجتا ہوں۔ جب میر صاحب کا یہ رنگ دیکھا تو حکیم آغا جان کے دم میں دم آیا۔ انھوں نے بھی اس ہجو اور غیبت کے بارے میں چند مناسب الفاظ کہے اور خدا خدا کر کے یہ آئی بلا ٹلی۔
اب میر صاحب نے غزل شروع کی۔ کیا پڑھا، خدا ہی بہتر جانتا ہے۔ بس اتنا تو معلوم ہوا کہ تیر، پیر، کھیر قافیہ، اور ’’ہے‘‘ ردیف ہے۔ اس کے علاوہ میں تو کیا خود میر صاحب بھی نہیں بتا سکتے کہ انھوں نے کیا پڑھا اور مضمون کیا تھا۔ جہاں قافیہ اور ردیف آئی لوگوں نے سمجھ لیا کہ شعر پورا ہو گیا اور تعریفیں شروع ہوئیں۔ کسی نے ایک آدھ اعتراض بھی جڑ دیا۔ اعتراض ہوا اور میر صاحب بگڑے۔ ان کے بگڑنے میں سب کو مزہ آتا تھا۔ اعتراضوں اور میر صاحب کے جوابوں کا رنگ بھی دیکھ لیجیے۔ غزل میں میر صاحب نے جو ایک مصرعے کو کھینچنا شروع کیا تو اتنا کھینچا کہ شیطان کی آنت ہو گیا۔ مولوی مملوک العلی صاحب نے کہا: اجی میر صاحب! یہ مصرع بحر طویل میں جا پڑا۔ میر صاحب نے کہا: مولوی صاحب! کبھی بحر طویل دیکھی بھی ہے یا یوں ہی سنی سنائی باتوں پر اعتراض ٹھونک دیا۔ پہلے مُطَوَّل پڑھیے مطول، جب معلوم ہو گا کہ بحرِ طویل کس کو کہتے ہیں۔ مولوی صاحب بڑے چکرائے، کہنے لگے: میر صاحب! بھلا مطول کو بحر طویل سے کیا واسطہ؟ ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ۔ آپ کا جو جی چاہتا ہے کہہ جاتے ہیں۔ میر صاحب کو اب کسی حمایتی کی تلاش ہوئی، مولانا صہبائی کی طرف دیکھا۔ انھوں نے کہا کہ مولوی صاحب! مطول میں بحر طویل کی بحریں نہیں ہیں تو اور کیا ہے؟ آپ بھی ہمارے میر صاحب کو اپنی علمیت کے دباؤ سے خاموش کر دینا چاہتے ہیں۔ بس اتنی مدد ملنی تھی کہ میر صاحب شیر ہو گئے، کہنے لگے: جی ہاں مولوی صاحب! آپ سمجھتے ہوں گے کہ آپ کے سوا کسی نے مطول پڑھی ہی نہیں۔ اجی حضرت! میں تو روزانہ اس کے دو دور کرتا ہوں۔ کل ہی اس کی ایک بحر میں غزل لکھنے بیٹھا تھا، لکھتے لکھتے تھک گیا۔ ایک مصرع کوئی پونے دو سو صفحے میں لکھا۔ وہ تو کہو کہ بیاض کے صفحے ہی ختم ہو گئے جو مصرع ختم ہوا، ورنہ خدا معلوم اور کہاں تک جاتا۔ مرزا نوشہ نے کہا: میر صاحب! آپ سچ فرماتے ہیں۔ ہمارے مولوی صاحب نے بحر طویل کہاں دیکھی، مجھ سے پوچھو، میرے بھتیجے خواجہ امان کو جانتے ہو؟ اس نے ایک کتاب بوستانِ خیال لکھی ہے۔ یہ یہ بڑی اور یہ موٹی بارہ جلدیں ہیں، بحر طویل کے بس بارہ مصرعوں میں ساری جلدیں ختم ہو گئی ہیں۔ آپ کا مصرع بحر طویل میں نہیں، رباعی کی بحر میں ہے۔ میر صاحب نے بڑے زور سے ’’ہیں‘‘ کی اور بگڑ کر کہا: واہ مرزا صاحب! سیدھے چلتے چلتے آپ بھی بھٹک گئے۔ رباعی کی بحریں آپ کو معلوم بھی ہیں؟ بھلا بتائیے تو سہی کون سی کتاب میں ہیں؟ یہ ذرا ٹیڑھا سوال تھا۔ مرزا غالب ذرا چپ ہوئے تو خود میر صاحب نے کہا: میں تو پہلے ہی جانتا تھا کہ آپ نے زبردستی اعتراض کر دیا ہے۔ مرزا صاحب! اربعین پڑھیے جب معلوم ہو گا کہ رباعی کی بحریں کون کون سی ہیں۔
غرض اسی خوش مذاقی میں کوئی گھنٹہ بھر گزر گیا۔ ہنستے ہنستے جو آنسو نکلے، انھوں نے نیند کے خمار سے آنکھیں صاف کر دیں اور ایسا معلوم ہونے لگا گویا مشاعرے کا دوسرا دور شروع ہو رہا ہے اور سب لوگ تازہ دم ابھی آ کر بیٹھے ہیں۔ جب لوگ اعتراض کرتے کرتے اور میر صاحب جواب دیتے دیتے تھک گئے، تو ایک دفعہ ہی میر صاحب نے کہا: حضرات! غزل ختم ہوئی۔ سب نے کہا: میر صاحب! ابھی مقطع تو آیا ہی نہیں، بے مقطعے کی یہ کیسی غزل؟ میر صاحب نے فرمایا: مقطعے کی اس شاعر کو ضرورت ہے جو بتانا چاہے کہ یہ غزل میری ہے، ہمیں اس کی ضرورت نہیں۔ ہماری غزل کی یہی پہچان ہے، جہاں شروع کی، بس معلوم ہو گیا کہ یہ میر صاحب کے سوا اور کسی کی نہیں ہو سکتی۔ یہ کہتے کہتے انھوں نے جزدان گردانا اور اپنی جگہ آ بیٹھے۔
ایک شمع اٹھا کر میر صاحب کے عین مقابل کے شاعر مرزا جمعیت شاہ ماہرؔ کے سامنے رکھ دی گئی۔ یہ شاہ عالم بادشاہ غازی انارَ اللہ برہانَہ کے پوتے اور صابرؔ کے شاگرد ہیں۔ کلام صاف اور زبان بڑی میٹھی ہے۔ لکھا تھا:
ہم بھی ضرور کعبے کو چلتے، پر اب تو شیخ
قسمت سے بت کدے ہی میں دیدار ہو گیا
ناصح کی بات سننے کا کس کو یہاں دماغ
تیرا ہی ذکر تھا کہ میں ناچار ہو گیا
اے ہم نشیں! وہ حضرتِ ماہرؔ نہ ہوں کہیں
اک پارسا سنا ہے کہ مے خوار ہو گیا
میر صاحب کے کلام نے سب کی آنکھوں سے نیند کا خمار اتار دیا تھا، اس لیے اس غزل کی جیسی چاہیے ویسی تعریف ہوئی اور میاں ماہرؔ کو محنت کا پورا پورا صلہ مل گیا۔
اُن کے بعد شمع قاضی نجم الدین برقؔ کے سامنے آئی۔ یہ سکندرآباد کے رہنے والے ہیں۔ کوئی بیس بائیس برس کی عمر ہے۔ سر پر لمبے لمبے بال، سانولی رنگت، اس میں سبزی جھلکتی ہوئی، اونچا قد، وجیہہ صورت، سفید غرارے دار پیجامہ، سفید انگرکھا، دو پلڑی ٹوپی، بڑے خوش مزاج، شیریں کلام، ہنس مکھ، بذلہ سنج، وارستہ مزاج، رند مشرب آدمی ہیں۔ پہلے مومنؔ خاں کے شاگرد تھے، پھر ان کے ایما سے میاں تسکین کو کلام دکھانے لگے۔ آواز بڑی دل کش اور طرزِ ادا خوب ہے۔ غزل بھی ایسی پڑھی کہ واہ واہ! کہتے ہیں:
بزمِ اغیار ہے، ڈر ہے نہ خفا تو ہو جائے
ورنہ اک آہ میں کھینچوں تو ابھی ہو ہو جائے
حرم و دیر کے جھگڑے ترے چھپنے سے پڑے
ورنہ تو پردہ اٹھا دے، تو تو ہی تو ہو جائے
کچھ مزہ ہے یہ ترے روٹھ کے مَن جانے کا
چاہتا ہوں یوں ہی ہر روز خفا تو ہو جائے
تو تو جس خاک کو چاہے، وہ بنے بندۂ پاک
میں خدا کس کو بناؤں، جو خفا تو ہو جائے
آپ انکار کریں، وصل سے میں در گزرا
کچھ تو ہو جس سے طبیعت مری یکسو ہو جائے
ہو نہ ہو بس میں کوئی، کچھ نہیں اس کی پروا
دلِ بے تاب پہ اے برقؔ! جو قابو ہو جائے
اللہ اللہ! در و دیوار سے بے خودی برس رہی تھی۔ جب یہ مصرع پڑھا کہ:
میں خدا کس کو بناؤں، جو خفا تو ہو جائے
تو ساری محفل پر ایک مستی سی چھا گئی۔ اور تو اور، استادانِ فن کی بھی یہ حالت تھی کہ بار بار شعر پڑھواتے، خود پڑھتے اور مزے لیتے تھے۔
ابھی ان کی تعریفیں ختم نہ ہوئی تھیں کہ شمع مرزا منجھلے المتخلص بہ فسوںؔ کے سامنے رکھی گئی۔ یہ نوجوان آدمی ہیں۔ مرزا کریم بخش مرحوم کے فرزند اور حضرت ظل سبحانی کے نواسے ہیں۔ ان کا کیا کہنا، زبان تو ان کے گھر کی لونڈی ہے، گا کر غزل پڑھتے ہیں۔ پڑھتے کیا ہیں، جادو کرتے ہیں۔ ان کی غزل کے دو شعر لکھتا ہوں:
اللہ رے جذبۂ دلِ مضطر، کہ تیر کا
باہر ہمارے پہلو کے سوفار بھی نہیں
کچھ آپی آپ دل یہ مرا بیٹھا جائے ہے
ظاہر میں تو الٰہی میں بیمار بھی نہیں
دوسرے شعر میں الفاظ کیا بٹھائے ہیں، نگینے جڑ دیے ہیں۔ آخر کیوں نہ ہو، قلعے کے رہنے والے ہیں۔
ان کے بعد سیدھی جانب سے شمع سرک کر لالہ بالمکند حضورؔ کے سامنے آئی۔ یہ ذات کے کھتری اور خواجہ میر دردؔ کے شاگرد ہیں۔ کوئی ستر اسی برس کا سِن ہے۔ سفید نورانی چہرہ، اس پر سفید لباس، بغل میں انگوچھا، کندھوں پر سفید کشمیری رومال۔ بس جی چاہتا تھا کہ اِن کو دیکھے ہی جائیے۔ شمع سامنے آئی تو انھوں نے عذر کیا کہ میں اب سنانے کے قابل نہیں رہا، سننے کے قابل رہ گیا ہوں۔ جب سبھوں نے اصرار کیا تو انھوں نے یہ قطعہ پڑھا:
نہ پاؤں میں جنبش، نہ ہاتھوں میں طاقت
جو اٹھ کھینچیں دامن ہم اس دل ربا کا
سرِ راہ بیٹھے ہیں اور یہ صدا ہے
کہ اللہ والی ہے بے دست و پا کا
قطعہ اس طرح پڑھا کہ خود تصویر ہو گئے۔ ’’نہ پاؤں میں جنبش‘‘ کہتے ہوئے اٹھے مگر پاؤں نے یاری نہ کی، لڑکھڑا کر بیٹھ گئے۔ ’’نہ ہاتھوں میں طاقت‘‘ کہہ کر ہاتھ اٹھائے، مگر ضعف سے وہ بھی کچھ یوں ہی اٹھ کر رہ گئے۔ دوسرا مصرع ذرا تیز پڑھا۔ تیسرا مصرع پڑھتے وقت اس طرح بیٹھ گئے جیسے کوئی بے دست و پا سرِ راہ بیٹھ کر صدا لگاتا ہے اور ایک دفعہ ہی دونوں آنکھوں کو آسمان کی طرف اٹھا کر جو چوتھا مصرع پڑھا تو یہ معلوم ہوتا تھا گویا ساری مجلس پر جادو کر دیا۔ ہر ایک کے منہ سے تعریف کے بجائے بے ساختہ یہی نکل گیا:
کہ اللہ والی ہے بے دست و پا کا
استاد ذوق نے کہا: یہ خدا کی دین اور خواجہ میر درد کا فیض ہے۔ سبحان اللہ! کیا مؤثر کلام ہے۔ ہم دنیا داروں میں یہ اثر پیدا ہونے کے لیے میر درد ہی جیسا استاد چاہیے۔
اس کلام کے بعد مرزا غلام محی الدین اشکیؔ کی غزل بھلا کون سنتا۔ یہ شاہ عالم بادشاہ غازی کے پوتے ہیں۔ کوئی چالیس سال کی عمر ہے، اونچا قد، سفید پوش، ثقہ صورت آدمی ہیں۔ لکھا تھا:
کچھ وجد نہیں نغمۂ مطرب ہی پہ موقوف
کافی ہے یہاں نالۂ بے ربط درا کا
سجدے میں گرے دیکھ کے تصویرِ بت اشکیؔ
معلوم ہوا، آپ کا خرقہ تھا ریا کا
ان کے بعد شمع صاحبزادہ عباس علی خاں بیتابؔ کے سامنے آئی۔ تیس بتیس برس کا سِن ہو گا۔ رامپور کے رہنے والے اور مومن خاں کے شاگرد ہیں۔ نواب مصطفی خاں شیفتہؔ سے بڑی دوستی ہے، انہی کے ساتھ مشاعرے میں آ گئے تھے۔ بڑی اونچی آواز میں غزل پڑھی، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ تحت اللفظ پڑھ رہے ہیں۔ غزل تو کچھ اچھی نہ تھی مگر قطعہ ایسا تھا کہ تعریف نہیں ہو سکتی۔ مے خانے کی تقسیم ایسی خوبی سے کی تھی کہ سبحان اللہ! ہائے لکھا ہے:
معمور ہے خدا کی عنایت سے مے کدہ
ساقی اگر نہیں ہے، نہ ہو، مے سے کام ہے
بیتابؔ پی، خدا نے تجھے بھی دیے ہیں ہاتھ
یہ خم ہے، یہ سبو ہے، یہ شیشہ، یہ جام ہے
بھلا ایسے بڑے مشاعرے میں مرزا فخر الدین حشمت کو پڑھنا کیا ضرور تھا۔ نہ کلام ہی اچھا، نہ پڑھنے کی طرز ہی اچھی، مگر اُن کو روک کون سکتا تھا۔ شہزادے تھے اور وہ بھی شاہ عالم بادشاہ کے پوتے، خیر پڑھ لیا اور بھائی بندوں نے تعریفیں بھی کر دیں۔ خوش ہو گئے۔ غزل یہ تھی:
ترے بیمارِ ہجراں کا ترے بن
یہ عالم ہے کہ عالم نوحہ گر ہے
مجھے روتے جو دیکھا، ہنس کے بولے
مرے حشمتؔ! بتا کیوں چشم تر ہے
ہاں ان کے بعد جس کے سامنے شمع آئی، وہ نوجوان سہی، مگر شاعر ہے اور ایسا شاعر ہو گا کہ ہندوستان بھر میں نام کرے گا۔ بھلا کون سا مشاعرہ ہے جس میں قربان علی بیگ سالک کی غزل شوق سے نہیں سنی جاتی اور کون سا شعر ہوتا ہے جو بار بار نہیں پڑھوایا جاتا۔ جو ایک دفعہ بھی کسی مشاعرے میں گیا ہے، وہ ان کو دور سے پہچان لے گا۔ چھوٹا سا قد، دبلے پتلے ہاتھ پاؤں، موٹی سی ناک، چھوٹی چھوٹی آنکھیں، موٹی جلد، گندمی رنگ، اس پر چیچک کے داغ، چھدری چھدری چھوٹی سی ڈاڑھی، کلوں پر کم، ٹھوڑی پر زیادہ، سر پر خشخاشی بال، کوئی تیس سال کی عمر۔ بس بخارا کے ترک معلوم ہوتے ہیں، ہاں لباس ان لوگوں سے مختلف ہے۔ نیچی چولی کا انگرکھا، تنگ مہری کا پیجامہ، سر پر سفید گول ٹوپی، ہاتھ میں سفید لٹھے کا رومال۔ شمع کا ان کے سامنے آنا تھا کہ سب سنبھل کر بیٹھ گئے۔ انھوں نے بھی انگرکھے کی آستین الٹ، ٹوپی کو اچھی طرح جما، اپنے استاد مرزا غالب کی طرف دیکھا۔ ادھر سے مسکرا کر کچھ اشارہ ہوا تو انھوں نے صاحبِ عالم کی طرف دیکھ کر عرض کی: اجازت ہے؟ مرزا فخرو نے کہا: میاں سالکؔ! پڑھو، آخر اس اجازت کی ضرورت ہی کیا ہے۔ سالکؔ نے جیب میں سے کاغذ نکالا، کچھ الٹا پلٹا، پھر ایک بار سنبھل کر کہا: عرض کیا ہے:
انتہا صبر آزمائی کی
ہے درازی شبِ جدائی کی
ہے برائی نصیب کی کہ مجھے
تم سے امید ہے بھلائی کی
نقش ہے سنگِ آستاں پہ ترے
داستاں اپنی جبہ سائی کی
ہے فغاں بعد امتحانِ فغاں
پھر شکایت ہے نارسائی کی
کیا نہ کرتا وصال شادی مرگ
تم نے کیوں مجھ سے بے وفائی کی
راز کھلتے گئے مرے سب پر
جس قدر اس نے خود نمائی کی
کتنے عاجز ہیں ہم کہ پاتے ہیں
بندے بندے میں بو خدائی کی
رہ گئیں دل میں حسرتیں سالکؔ!
آ گئی عمر پارسائی کی
ایک ایک شعر پر یہ عالم تھا کہ مجلس لوٹی جاتی تھی، ایک ایک شعر کئی کئی بار پڑھوایا جاتا تھا، ایک ایک لفظ پر تعریفیں ہوتیں اور ایک ایک بندش کی داد ملتی۔ استاد ذوقؔ نے تیسرے شعر پر کہا: واہ میاں سالک کیا کہنا ہے! سب ہی جبہ سائی باندھتے آئے ہیں، تمھاری داستان کو کوئی نہیں پہنچا۔ کیا کلام ہے، کیا روانی ہے، سبحان اللہ! حکیم مومن خاں نے کہا: میاں سالکؔ! یہ جوانی اور مقطعے میں یہ بوڑھا مضمون! تمھاری ’’عمرِ پارسائی‘‘ کو بہت دن پڑے ہیں، ابھی سے تو بڈھوں کی سی باتیں نہ کیا کرو۔ سالکؔ نے جواب دیا: استاد! میں تو جوانی میں بڈھا ہو گیا۔ دیکھیے بڑھاپا دیکھنا نصیب بھی ہوتا ہے یا نہیں، پھر دل میں آئے ہوئے مضمون کیوں چھوڑ دوں۔ بعد میں یہ کون دیکھتا پھرے گا کہ یہ شعر بڈھے نے کہا تھا یا جوان نے۔ ہم نہ رہیں گے مضمون رہ جائے گا۔
جب تعریفوں کا سلسلہ ذرا رُکا تو شمع مرزا رحیم الدین ایجادؔ کے سامنے آئی۔ یہ شہزادے مرزا حسین بخش کے صاحب زادے اور مولانا صہبائی کے شاگرد ہیں۔ کوئی چوبیس پچیس سال کی عمر ہے۔ شعر کہتے ہیں، مگر پھیکے، ہاں پڑھتے بہت اچھی طرح ہیں، گانا خوب جانتے ہیں۔ ان کی آواز شعر کی کمزوری ظاہر ہونے نہیں دیتی:
بت خانے میں تھا یا کہ میں کعبہ کے قریں تھا
اے زاہدِ ناداں! تجھے کیا ہے، میں کہیں تھا
ہر چند کہ میں دوست کے ہمراہ نہیں تھا
پر دل وہ بلا ہے وہ جہاں تھا، یہ وہیں تھا
توڑا ہے یہ کچھ آپ کو میں نے کہ جہاں میں
ثابت نہ رہا نام کا جو میرے نگیں تھا
غزل میں تو کیا خاک مزہ آتا، ہاں ان کے گانے میں مزہ آ گیا۔ گا کر پڑھنے کا یہ نیا رنگ قلعے سے چلا ہے، مگر استادانِ فن اس کو پسند نہیں کرتے۔
ان کے بعد شمع نواب علاؤ الدین خاں علائیؔ کے سامنے آئی۔ انھوں نے بہت اونچی آواز میں اپنی غزل سنائی۔ مرزا غالبؔ کے بڑے چہیتے شاگرد ہیں، ابھی نو عمر ہیں، شعر اچھا کہتے ہیں۔ کیوں نہ ہو، کس کے شاگرد ہیں۔ غزل دیکھ لو، استاد کا رنگ غالب ہے:
آوارگانِ گل کدۂ آز و آرزو!
حاشا اگر تمھیں سرِ سیر و فراغ ہے
رکھیو سنبھل کے پاؤں، جو بینا ہو چشمِ دل
کیجو سمجھ کے کام، جو روشن دماغ ہے
وہ گل جو آج ہے قدحِ موج خیزِ رنگ
وہ لالہ جو کہ باغ کا چشم و چراغ ہے
گل چور کل ہے سنگِ جفائے سپہر سے
گویا کہ غم کدے کا شکستہ ایاغ ہے
اور لالہ تند بادِ حوادث سے خاک و خوں
گویا دل و جگر کا کسی کے وہ داغ ہے
جس جا کہ تھا ترانۂ بلبل نشاط خیز
اس جا پہ آج دل شکن آوازِ زاغ ہے
مغرورِ جاہ سے یہ کہو تم علائیاؔ!
کل ایک سطحِ خاک ہے، جو آج باغ ہے
علائیؔ کے پاس سے شمع کا ہٹ کر سامنے آنا تھا کہ مرزا کریم الدین رسا سنبھل کر بیٹھ گئے۔ ایک بڑی لمبی غزل پڑھی مگر ساری کی ساری بے مزہ۔ نہ الفاظ کی بندش اچھی، نہ مضامین میں کوئی خوبی۔ تعقیدوں سے الجھن پیدا ہوتی تھی اور رعایتِ لفظی سے جی گھبراتا تھا۔ ان کے بس دو ہی شعر نمونے کے طور پر لکھ دینا کافی سمجھتا ہوں:
باز آ، ستا تو مجھ کو بہت عشوہ گر نہیں
کرتا کسی پہ ظلم کوئی اس قدر نہیں
گو نزع میں ہوں میں، ترے بن آئے جانِ من!
کرنے کی جان بھی مرے تن سے سفر نہیں
یہ پڑھ چکے تو نواب ضیاء الدین خاں نیرؔ و رخشاںؔ کے پڑھنے کی باری آئی۔ فارسی کے شعر خوب کہتے ہیں، اردو کی غزلیں ذرا پھیکی ہوتی ہیں، لکھا تھا:
پی کے گرنے کا ہے خیال ہمیں
ساقیا لیجیو سنبھال ہمیں
شب نہ آئے جو اپنے وعدے پر
گزرے کیا کیا نہ احتمال ہمیں
دل میں مضمر ہیں معنیِ باقی
کسی صورت نہیں زوال ہمیں
تیرے غصے نے ایک دم میں کیا
مُردۂ نُہ ہزار سال ہمیں
طالعِ بد سے نیّرؔ رخشاں
اپنے ہی گھر میں ہے وبال ہمیں
ان کے بعد شمع مرزا پیارے رفعتؔ کے سامنے آئی۔ یہ سلاطین زادے ہیں، بٹیریں لڑانے کا بڑا شوق ہے، شعر بھی خوب کہتے ہیں۔ پہلے احسانؔ کے شاگرد تھے، اب مولانا صہبائی سے تلمّذ ہے، کوئی چالیس سال کی عمر ہو گی۔ لکھا تھا:
بسانِ طائرِ رنگِ پریدہ وحشت سے
کسے دماغ ہے اب آشیاں بنانے کا
نہ عذر تھا ہمیں ہونے میں خاک کے، گر ہم
یہ جانتے کہ وہ دامن نہیں بچانے کا
گُندھی تھی کون سے بد مستِ تشنہ لب کی وہ خاک
کہ جس سے خُم یہ بنا ہے شراب خانے کا
بہ ذوق ناز کو دے رخصتِ جفا کہ یہاں
ہمیں بھی عزم ہے طاقت کے آزمانے کا
ہیں ایک وہ بھی کہ تم سے ہے جن کو راز و نیاز
اور ایک ہم ہیں کہ تکتے ہیں منہ زمانے کا
آخری شعر میں مایوسی کی جو تصویر کھینچی ہے، اس کی تعریف نہیں ہو سکتی۔ کوئی نہ تھا جو اس شعر کے دوسرے مصرعے کو پڑھ کر نہ جھومتا ہو اور بار بار واہ واہ اور سبحان اللہ نہ کہتا ہو۔ ہوتے ہوتے میاں عارفؔ کا نمبر آ ہی گیا۔ بھلا ان کو مشاعرے کے انتظام سے کب فرصت تھی جو غزل لکھتے، پھر بھی چلتے پھرتے کچھ لکھ ہی لیا تھا وہی پڑھ دیا۔ اِس دن رات کی گردش کے بعد اتنا لکھ لینا کمال ہے۔ غزل تھی:
اٹھتا قدم جو آگے کو اے نامہ بر نہیں
پیچھے تو چھوڑ آئے کہیں اس کا گھر نہیں
اوروں کو ہو تو ہو، ہمیں مرنے سے ڈر نہیں
خط لے کے ہم ہی جاتے ہیں، گر نامہ بر نہیں
بے التفاتیوں کا تری شکوہ کیا کریں
اپنے ہی جب کہ نالۂ دل میں اثر نہیں
مطلعے کی سب نے تعریف کی۔ استاد احسانؔ نے کہا: میاں عارفؔ! میں بھی شعر کہتے کہتے بڈھا ہو گیا، لاکھوں شعر سنے، لاکھوں سنائے مگر یہ مضمون بالکل نیا ہے اور کس خوبی سے ادا کیا گیا کہ دل خوش ہو گیا۔ میاں عارف کے بعد شمع مرزا غلام نصیر الدین عرف مرزا منجھلے کے سامنے آئی۔ یہ شہزادے ہیں، احسانؔ کے شاگرد ہیں اور قناعتؔ تخلص کرتے ہیں۔ غزل خاصی کہتے ہی۔ میں تو یہی کہوں گا کہ شہزادوں میں بہت کم ایسے شاعر ہوں گے۔ غزل تھی:
شوق کو کثرتِ نظارہ سے رشک آتا ہے
حشر سے پہلے میسر ہو وہ دیدار مجھے
کعبے تک جانے میں تھی خاطرِ زاہد، ورنہ
دَیر میں بھی تھی سدا رخصتِ دیدار مجھے
جنسِ دزدیدہ کی مانند ہے الجھاؤ میں جان
کہ نہ لیتا ہے نہ پھیرے ہے خریدار مجھے
رازِ دل لب پہ نہ لانا کبھی منصور کہ یاں
کر دیا بات کے کہنے نے گنہ گار مجھے
شمع کا حکیم آغا جان عیشؔ کے سامنے آنا تھا کہ لوگوں میں سرگوشیاں ہوئیں۔ حکیم صاحب بادشاہی اور خاندانی طبیب ہیں۔ زیورِ علم سے آراستہ اور لباسِ کمال سے پیراستہ، صاحبِ اخلاق، خوش مزاج، شیریں کلام، شگفتہ صورت۔ جب دیکھو یہ معلوم ہوتا ہے کہ مسکرا رہے ہیں۔ طبیعت ایسی ظریف و لطیف اور لطیفہ سنج پائی ہے کہ سبحان اللہ! میانہ قد، خوش اندام، سر پر ایک ایک انگل بال سفید، ایسی ہی ڈاڑھی اس گوری سرخ سفید رنگت پر کیا بھلی معلوم ہوتی ہے۔ گلے میں ململ کا کرتا، جیسے چنبیلی کا ڈھیر پڑا ہنس رہا ہے۔ مگر کچھ دنوں سے ان کے دوست ان سے بھی ذرا کھنچ گئے تھے۔ میاں ہدہد کو پال کر انھوں نے سب سے بگاڑ لی۔ شروع شروع میں تو اس کی واہی تباہی باتوں پر کسی نے دھیان نہیں کیا، لیکن جب اس نے استادوں پر حملے شروع کیے، اس وقت ہدہد کے ساتھ ہی حکیم صاحب سے بھی لوگوں کو کچھ نفرت سی ہو گئی۔ غضب یہ کیا کہ اجمیری دروازے والے مشاعرے میں خود انھوں نے مرزا نوشہ پر کھلا ہوا حملہ کر دیا، ایک قطعہ لکھا تھا کہ:
اگر اپنا کہا تم آپ ہی سمجھے تو کیا سمجھے
مزہ کہنے کا جب ہے، اک کہے اور دوسرا سمجھے
کلامِ میرؔ سمجھے اور زبانِ میرزاؔ سمجھے
مگر اِن کا کہا، یہ آپ سمجھیں یا خدا سمجھے
مولوی مملوک العلی نے کہا: حکیم صاحب! شعر کے سمجھ میں نہ آنے کی دو ہی صورتیں ہیں، یا تو شعر ہی بے معنی ہے، یا سمجھنے والے کے دماغ کا قصور ہے۔ ہم سب تو ان کے شعر کو سمجھتے ہیں، پھر اپنے ساتھ ہم غریبوں کو کیوں لپیٹ لیا۔ مومن خاں نے کہا: بھئی! مجھے تو اس قطعے کے تیسرے مصرعے میں بھی شاعرانہ تعلّی معلوم ہوتی ہے۔ بہرحال بڑی مشکل سے معاملہ رفع دفع ہوا۔ اس معرکے کے بعد یہ دوسرا موقع تھا کہ حکیم صاحب مشاعرے میں تشریف لائے تھے۔ میر صاحب نے جو ہدہد کے مقابلے میں اعلانِ جنگ کیا تھا، وہ سن چکے تھے، اب لوگوں میں جو کانا پھوسی ہونے لگی، اس سے اور بھی پریشان ہوئے، پڑھنے میں تامل کیا۔ آخر مرزا فخرو کے اصرار پر یہ غزل پڑھی:
صلح ان سے ہمیں کیے ہی بنی
دل پہ جھگڑا تھا، دل دیے ہی بنی
زہد و تقویٰ دھرے رہے سارے
ہاتھ سے اس کے مے پیے ہی بنی
لائے وہ ساتھ غیر کو ناچار
پاس اپنے بٹھا لیے ہی بنی
کس کا تھا پاسِ شوقِ ظلم اے عیشؔ!
ان جفاؤں پہ بھی جیے ہی بنی
جب ایسی غزل ہو تو بھلا کون تعریف نہ کرے۔ صلِ علی کے شور اور سبحان اللہ کی آوازوں نے پڑھنے والے اور سننے والے، دونوں کے دلوں سے غبارِ کدورت دور کر دیا۔ اور حکیم صاحب وہی حکیم صاحب ہو گئے جو پہلے تھے، نہ ان سے کسی کو رنج رہا اور نہ ان کو کسی سے ملال۔ ہاں اگر پہلے کہیں میاں ہدہد کچھ چرک جاتے تو خدا معلوم مشاعرے کا کیا رنگ ہو جاتا۔ وہ تو خدا بھلا کرے ہمارے میر صاحب کا، انھوں نے پہلے ہی اس پکھیرو کی زبان بند کر دی۔ خیر، رسیدہ بود بلائے و لے بخیر گذشت۔
حکیم صاحب کے بعد مرزا رحیم الدین حیا کا نمبر آیا۔ یہ وہی میاں حیاؔ ہیں جن کی تعریف مشاعرے میں آتے ہی ان کے والد صاحب قبلہ مرزا کریم الدین رساؔ نے فرمائی تھی۔ بڑے خوش طبع، ذہین، نیک فطرت، بدیہہ گو اور ظریف آدمی ہیں۔ کوئی پینتیس چھتیس سال کی عمر ہے، اکثر بنارس میں رہتے ہیں، کبھی کبھی دہلی چلے آتے ہیں۔ شکل تو بالکل شاہزادوں کی سی ہے، مگر ڈاڑھی منڈی ہوئی اور لباس لکھنؤ والوں کا ہے۔ پہلے اپنے والد کے شاگرد ہوئے، پھر شاہ نصیرؔ سے اصلاح لی، اب اپنا کلام استاد ذوق کو دکھاتے ہیں۔ شطرنج بے مثل کھیلتے ہیں۔ پہلے حکیم اشرف علی خاں سے سیکھی، اب مومن خاں کو گھیرے رہتے ہیں۔ ستار ایسا بجاتے ہیں کہ سبحان اللہ! شاعر بھی اچھے ہیں مگر محنت نہیں کرتے۔ زبان کی چاشنی پر مضمون کو نثار کر دیتے ہیں۔ یہ غزل لکھ کر لائے تھے:
موت ہی چارہ سازِ فرقت ہے
ہو چکا وصل، وقتِ رخصت ہے
روز کی داد کون دیوے گا
رنج مرنے کا، مجھ کو راحت ہے
کارواں عمر کا ہے رخت بدوش
اے اجل جلد آ کہ فرصت ہے
سانس اک پھانس سی کھٹکتی ہے
ظلم کرنا تمھاری عادت ہے
تم بھی اپنے حیاؔ کو دیکھ آؤ
ہر نفس بانگِ کوسِ رحلت ہے
دم نکلتا نہیں، مصیبت ہے
آج اس کی کچھ اور حالت ہے
پانچویں شعر پر ان کے والد نے ٹوکا اور کہا: میاں حیاؔ! لکھنؤ جا کر اپنی شکل تو بدل آئے تھے، اب زبان بھی بدل دی، سانس کو مونث باندھ گئے۔ حیاؔ نے جواب دیا: جی نہیں قبلہ، میں نے استاد ذوق کی تقلید کی ہے، وہ فرماتے ہیں:
سینے میں سانس ہو گی اڑی دو گھڑی کے بعد
بھلا صاحب عالم کب چوکنے والے تھے، کہنے لگے: بھلا ہمارے مقابلے میں آپ کے استاد کا کلام سند ہو سکتا ہے؟ وہ جو چاہیں لکھیں، یہ بتاؤ قلعے میں ’’سانس‘‘ مذکر ہے یا مونث؟ بے چارے حیاؔ مسکرا کر خاموش ہو گئے۔
اب شمع مولانا صہبائیؔ کے رو بہ رو آئی۔ ان کی علمیت کا ڈنکا تمام ہندوستان میں بج رہا ہے۔ ایسے جامع الکمال آدمی کہاں پیدا ہوتے ہیں۔ ہزاروں شاگرد ہیں، اکثر ریختہ کہتے ہیں، ان کو اصلاح دیتے ہیں اور خوب دیتے ہیں، مگر خود ان کا کلام تمام و کمال فارسی ہے۔ میں نے تو ریختے میں نہ کبھی ان کی غزل دیکھی اور نہ سنی اور مشاعرے میں بھی فارسی ہی کی غزل پڑھی۔ خوب خوب تعریفیں ہوئیں مگر ایمان کی بات یہ ہے کہ لوگوں کو مزہ نہ آیا:
ہمچو شبنم خویش را فارغز عالم ساختم
محرمِ خورشید گشتم، باخساں کم ساختم
مُردم و در چشمِ مردم عالمے تاریک گشت
من مگر شمعم، چو رفتم، بزم برہم ساختم
کفر در کیشم سپاسِ نعمتِ دیدارِ اوست
جلوہ در ہر رنگ دیدم، گردنے خم ساختم
جرمِ عشقم را جز اشد حور و من از ہجرِ دوست
داغ بر دل بردم و خلدش جہنم ساختم
نیست صہبائیؔ چو جامِ جم نصیبم، گو مباد
مے ز خونِ دل کشیدم، خویش را جم ساختم
مقطعے پر تو اتنی تعریفیں ہوئیں کہ بیان سے باہر ہے مگر جو بے چارے فارسی نہیں سمجھتے تھے وہ بیٹھے منہ دیکھا کیے۔ صاف بات تو یہ ہے کہ اردو کے مشاعرے میں فارسی کا ٹھونسنا کچھ مجھے بھی پسند نہ آیا۔
اہاہاہا! زبان کا لطف اٹھانا ہے تو اب سید ظہیر الدین خاں ظہیر کو سنیے۔ ابھی تیس بتیس سال کی عمر ہے، مگر کلام میں خدا نے وہ اثر دیا ہے کہ واہ واہ! ذوقؔ کی اصلاح نے اور سونے پر سہاگے کا کام کیا ہے۔ شکل و صورت سے یہ نہیں معلوم ہوتا تھا کہ ان کی طبیعت اس بلا کی ہے۔ قد خاصا اونچا، چھریرا بدن، کشادہ سینہ، سانولی رنگت، کشادہ دہن، اونچی ستواں ناک، آنکھیں نہ بہت بڑی نہ بہت چھوٹی مگر روشن، گول ڈاڑھی نہ بہت گھنی نہ بہت چھدری، سر پر پٹھے۔ لباس میں انگرکھا، تنگ مہری کا پیجامہ، سر پر سفید گول ٹوپی۔ خوش مزاج اور لطیفہ سنج ایسے کہ منہ سے پھول جھڑتے ہیں۔ پڑھنے کا بھی ایک خاص طرز ہے، لکھنؤ والوں کے تحت اللفظ پڑھنے سے ملتا جلتا ہے۔ ساتھ ہی اشاروں سے ایک ایک لفظ کو سمجھاتے جاتے ہیں، غزل ہوئی تھی:
جبیں اور شوق اُس کے آستاں کا
لٹا ہے قافلہ تاب و تواں کا
مری واماندگی منزل رساں ہے
ارادہ اور ارادہ بھی کہاں کا!
رہے پابند دل کے دل میں ارماں
خدا حافظ ہے دل کے کارواں کا
اٹھا سکتے نہیں سر آستاں سے
سراغِ نقشِ پا ہوں کارواں کا
ہمیشہ موردِ برق و بلا ہوں
قدم منزل نے پکڑا کارواں کا
دلِ بے تاب نے وہ بھی مٹایا
غضب ہے بارِ منت پاسباں کا
ظہیرؔ! آؤ، چلو اب مے کدے کو
مٹے جھگڑا الٰہی آشیاں کا
کسی کو کچھ جو دھوکا تھا فغاں کا
نکالا زہد و تقویٰ ہے کہاں کا
اور تو اور استادانِ فن نے اس غزل کی ایسی داد دی کہ میاں ظہیر کا دل غنچے کی طرح کھل گیا۔ تیسرے شعر پر تو یہ حالت تھی کہ تعریفوں کا سلسلہ ختم ہی نہ ہوتا تھا، سلام کرتے کرتے بچارے کے ہاتھ دکھ گئے ہوں گے۔ جب ذرا سکون ہوا تو سیدھی جانب کی شمع نواب مصطفی خاں شیفتہؔ کے سامنے آئی۔ ان کا کیا کہنا، استادانِ فن میں شمار کیے جاتے ہیں۔ مومنؔ کے شاگرد ہیں مگر خود استاد ہیں۔ انھوں نے کسی شعر کی تعریف کی اور اس کی وقعت بڑھی۔ یہ سن کر ذرا خاموش ہوئے اور شعر دوسروں کی نظروں سے بھی گر گیا۔ زبان کے ساتھ مضمون کو ترتیب دینا ایسے ہی لوگوں کا کام ہے۔ پڑھتے بھی ہیں تو ایک لفظ سمجھا سمجھا کر۔ آواز ایسی اونچی ہے کہ دور اور پاس سب کو صاف سنائی دے۔ غزل پڑھنے سے پہلے ادھر ادھر دیکھا، ذرا انگرکھا درست کیا، ٹوپی درست کی، انگرکھے کی آستینوں کو چڑھایا اور یہ غزل پڑھی:
آرام سے ہے کون جہانِ خراب میں
گل سینہ چاک اور صبا اضطراب میں
سب اس میں محو اور یہ سب سے علاحدہ
آئینے میں ہے آب، نہ آئینہ آب میں
معنی کی فکر چاہیے، صورت سے کیا حصول
کیا فائدہ ہے موج اگر ہے سراب میں
ذات و صفات میں بھی یہی ربط چاہیے
جوں آفتاب و روشنیِ آفتاب میں
وہ قطرہ ہوں کہ موجۂ دریا میں گم ہوا
وہ سایہ ہوں کہ محو ہوا آفتاب میں
بے باک شیوہ، شوخ طبیعت، زباں دراز
ملزم ہوا ہے، پر نہیں عاجز جواب میں
تکلیف شیفتہؔ ہوئی تم کو مگر حضور!
اس وقت اتفاق سے وہ ہیں عتاب میں
غزل تو ایسی ہے کہ بھلا کس کا منہ ہے جو تعریف کا حق ادا کر سکے، مگر تعریف بڑی سنبھل کر کی گئی۔ بڑے بڑے مشاعروں میں مَیں نے دیکھا کہ نو مشقوں کے دل تو تعریفوں سے خوب بٹھاتے ہیں، مگر جب استادوں کے پڑھنے کی نوبت آتی ہے تو وہ جوش و خروش نہیں رہتا، بلکہ جوش کے بجائے متانت زیادہ آ جاتی ہے۔ استادوں کے انہی شعروں کی تعریف ہوتی ہے جو واقعی قابلِ تعریف ہوں۔ اگر کسی شعر کی ذرا بے جا تعریف کر دی جائے تو اس سے ان کو تکلیف ہوتی ہے۔ یہ صرف اسی کلام کی تعریف چاہتے ہیں، جس کو یہ خود سمجھتے ہیں کہ اِس کی تعریف ہونی چاہیے۔ شعر پڑھ کر اگر دیکھتے بھی ہیں تو اپنے برابر والوں کی طرف اور وہی داد بھی دیتے ہیں۔ مشاعرے کے باقی لوگ ان کے کلام سے لطف ہی نہیں اٹھاتے، کچھ حاصل بھی کر لیتے ہیں اور ان کے لیے یہ غزلیں کسی طرح استاد کی اصلاح سے کم نہیں ہوتیں۔
ان کے بعد شہزادہ مرزا قادر بخش صابر کی باری آئی۔ یہ کوئی چالیس برس کے ہوں گے۔ ان کی شاعری کی قلعے میں بڑی دھوم ہے۔ خود ان کو بھی اپنے کلام پر ناز ہے۔ شعرائے دہلی کا تذکرہ لکھ رہے ہیں، مگر مشہور ہے کہ الف سے لے کری تک مولانا صہبائی کا قلم ہے۔ یہ سچ ہے یا جھوٹ، خدا بہتر جانتا ہے۔ خود انھوں نے اپنے خیالات ایک قطعے میں لکھے ہیں، وہ نقل کرتا ہوں:
پہلے استاد تھے احسانؔ و نصیرؔ و مومنؔ
ہوئی احساںؔ سے پر اصلاحِ طبیعت میری
پھر ہوا حضرتِ صہبائی کی اصلاح کا فیض
طبع باریک ہوئی ان کی بدولت میری
اور ہم بزم رہے مومنؔ و ذوقؔ و غالبؔ
اوستادوں ہی سے ہر دم رہی صحبت میری
ہند کا فضل و ہنر ذات پہ ہے جن کی تمام
مانتے ہیں وہی اشخاص فضیلت میری
منعقد ہوتی ہے جب شہر میں بزمِ اِنشاء
کرتے ہیں اہلِ سخن وقعت و عزت میری
اب اس کلام پر ان کو استاد کہو یا جو جی چاہے کہو۔ غزل میں بھی یہی پھیکا رنگ ہے۔ مضمون بھی بلند پایہ نہیں ہیں، مگر سارا شہر ان کو استاد مانتا ہے۔ ہوں گے، ممکن ہے میری ہی سمجھ کا پھیر ہو۔ غزل کہی تھی:
نظارہ برقِ حسن کا دشوار ہو گیا
جلوہ، حجابِ دیدۂ بیدار ہو گیا
محفل میں میں تو اس لبِ مے گوں کے سامنے
نامِ شراب لے کے گنہ گار ہو گیا
حائل ہوئی نقاب تو ٹھہری نگاہِ شوق
پردہ ہی جلوہ گاہِ رخِ یار ہو گیا
معلوم یہ ہوا کہ ہے پرسش گناہ کی
عاصی گنہ نہ کردہ گنہگار ہو گیا
اس کی گلی میں آن کے کیا کیا اٹھائے رنج
خاکِ شفا ملی تو میں بیمار ہو گیا
پیری میں ہم کو قطعِ تعلق ہوا نصیب
قامت خمیدہ ہوتے ہی تلوار ہو گیا
یہ پڑھ چکے تو شمع مفتی صدر الدین آزردہؔ کے سامنے پہنچی۔ اس پائے کے عالم شاعر نہیں ہوتے اور ہوتے ہیں تو استاد ہو جاتے ہیں۔ مفتی صاحب کے جتنے شاگرد جید عالم ہیں، اُس سے کہیں زیادہ ان کے تلامذہ شاعر ہیں اور شاعر بھی کیسے کہ بڑے پائے کے۔ مفتی صاحب کہتے تو خوب ہیں، مگر پڑھتے اس طرح ہیں گویا طاب علموں کو سبق دے رہے ہیں۔ آواز بھی ذرا نیچی ہے لیکن ان کی وجاہت کا یہ اثر ہے کہ مشاعرے میں سناٹا ہوتا ہے اور تعریف بھی ہوتی ہے تو خاص خاص شعروں پر اور بہت نیچی آواز میں۔ ہاں مرزا نوشہ ان سے مذاق کرنے میں نہیں چوکتے۔ کبھی کبھی اعتراض بھی کر بیٹھتے ہیں اور مزے مزے کی نوک جھونک ہو جاتی ہے۔ غزل ملاحظہ ہو، کیا پختہ کلام ہے:
نالوں سے میرے کب تہ و بالا جہاں نہیں
کب آسماں زمین و زمیں آسماں نہیں
افسردہ دل نہ ہو، درِ رحمت نہیں ہے بند
کس دن کھلا ہوا درِ پیرِ مغاں نہیں
شب اُس کو حال دل نے جتایا کچھ اس طرح
ہیں لب تو کیا، نگہ بھی ہوئی ترجماں نہیں
اے دل! تمام نفع ہے سودائے عشق میں
اک جان کا زیاں ہے، سو ایسا زیاں نہیں
کٹتی کسی طرح بھی نہیں یہ شبِ فراق
شاید کہ گردش آج تجھے آسماں نہیں
کہتا ہوں اُس سے کچھ میں، نکلتا ہے منہ سے کچھ
کہنے کو یوں تو ہے گی زباں اور زباں نہیں
آزردہؔ! ہونٹ تک نہ ہلے اس کے رو بہ رو
مانا کہ آپ سا کوئی جادو بیاں نہیں
آزردہؔ جیسے استاد کے بعد نواب مرزا خاں داغ کا پڑھنا ایک عجیب سی چیز ہے، مگر بات یہ ہے کہ اول تو داغؔ کو سب چاہتے ہیں، دل بڑھاتے ہیں اور جانتے ہیں کہ کسی دن یہی داغؔ ہندوستان کا چراغ ہو گا۔ دوسرے مرزا فخرو کے خیال سے ان کو استادوں میں جگہ ملی تھی، مگر انھوں نے غزل بھی ایسی پڑھی کہ استاد بھی قائل ہو گئے۔ سترہ اٹھارہ برس کے لڑکے کا اس قیامت کی غزل اور اس جرات سے پڑھنا واقعی کمال ہے۔ میری تو یہ رائے ہے کہ جو زبان داغؔ نے لکھی ہے، وہ شاید ہی کسی کو نصیب ہو گی۔ ذرا زبان کی شوخی، مضمون کی رنگینی اور طبیعت کی روانی ملاحظہ کیجیے اور داد دیجیے:
ساز یہ کینہ ساز کیا جانیں
ناز والے، نیاز کیا جانیں
شمع رو آپ گو ہوئے لیکن
لطفِ سوز و گداز کیا جانیں
کب کسی در کی جبہ سائی کی
شیخ صاحب نماز کیا جانیں
جو رہِ عشق میں قدم رکھیں
وہ نشیب و فراز کیا جانیں
پوچھیے مے کشوں سے لطفِ شراب
یہ مزہ پاکباز کیا جانیں
جن کو اپنی خبر نہیں اب تک
وہ مرے دل کا راز کیا جانیں
حضرتِ خضر جب شہید نہ ہوں
لطفِ عمرِ دراز کیا جانیں
جو گزرتے ہیں داغؔ پر صدمے
آپ بندہ نواز کیا جانیں
اللہ! اللہ! وہ سہانا وقت، وہ چھوٹی سی آواز، دل کش سُر، وہ الفاظ کی نشست، وہ بندش کی خوب صورتی اور سب سے زیادہ یہ کہ وہ داغ کی بھولی بھالی شکل، ایک عجیب لطف دے رہی تھی۔ ساری محفل میں کوئی نہ تھا جو محوِ حیرت نہ ہو گیا ہو اور کوئی نہ تھا جس کے منہ سے جزاک اللہ، سبحان اللہ اور صل علیٰ کے الفاظ بے ساختہ نکل نہ رہے ہوں۔ مرزا فخرو کی تو حالت یہ تھی کہ گھڑی گھڑی پہلو بدلتے اور دل ہی دل میں خوش ہوتے تھے۔ غزل ختم ہوئی اور کسی کو معلوم نہ ہوا کہ کب ختم ہو گئی۔ جب شمع حکیم مومن خاں مومن کے سامنے پہنچ گئی، اُس وقت لوگوں کا جوش کم ہوا اور اس ریختے کے استاد کا کلام سننے کو سب ہمہ تن گوش ہو گئے۔ انھوں نے شمع کو اٹھا کر ذرا آگے رکھا، ذرا سنبھل کر بیٹھے، بالوں میں انگلیوں سے کنگھی کی، ٹوپی کو کچھ ترچھا کیا، آستینوں کی چنٹ کو صاف کیا اور بڑی درد انگیز آواز میں دل پذیر ترنم کے ساتھ یہ غزل پڑھی:
الٹے وہ شکوے کرتے ہیں اور کس ادا کے ساتھ
بے طاقتی کے طعنے ہیں، عذرِ جفا کے ساتھ
بہرِ عیادت آئے وہ، لیکن قضا کے ساتھ
دم ہی نکل گیا مرا آوازِ پا کے ساتھ
مانگا کریں گے اب سے دعا ہجرِ یار کی
آخر تو دشمنی ہے اثر کو دعا کے ساتھ
ہے کس کا انتظار کہ خوابِ عدم سے بھی
ہر بار چونک پڑتے ہیں آوازِ پا کے ساتھ
سو زندگی نثار کروں ایسی موت پر
یوں روئے زار زار اہلِ عزا کے ساتھ
بے پردہ غیر پاس اسے بیٹھا نہ دیکھتے
اٹھ جاتے کاش ہم بھی جہاں سے حیا کے ساتھ
اس کی گلی کہاں، یہ تو کچھ باغِ خلد ہے
کس جائے مجھ کو چھوڑ گئی موت، لا کے ساتھ
اللہ رے گمرہی، بت و بت خانہ چھوڑ کر
مومنؔ چلا ہے کعبے کو اک پارسا کے ساتھ
شاعری کیا تھی جادو تھا، تمام لوگ ایک عالم محویت میں بیٹھے تھے۔ وہ خود بھی اپنے کلام کا مزہ لے رہے تھے۔ جس شعر میں ان کو زیادہ لطف آتا تھا، اس کے پڑھتے وقت ان کی انگلیاں زیادہ تیزی سے بالوں میں چلنے لگتی تھیں۔ بہت جوش ہوا تو کاکلوں کو انگلیوں میں بل دے کر مڑوڑنے لگے۔ کسی نے تعریف کی تو گردن جھکا کر ذرا مسکرا دیے۔ پڑھنے کا طرز بھی سب سے جدا تھا۔ ہاتھ بہت کم ہلاتے تھے اور ہلاتے بھی کیسے، ہاتھوں کو بالوں سے کب فرصت تھی، ہاں آواز کے زیر و بم اور آنکھوں کے اشاروں سے جادو سا کر جاتے تھے۔ غزل ختم ہوئی تو تمام شعرا نے تعریف کی۔ سن کے مسکرائے اور کہا: آپ لوگوں کی یہی عنایت تو ہماری ساری محنتوں کا صلہ ہیں، میں تو عرض کر چکا ہوں:
ہم داد کے خواہاں ہیں، نہیں طالبِ زر کچھ
تحسینِ سخن فہم ہے مومنؔ! صلہ اپنا
ان کے بعد شمع استاد احسانؔ کے سامنے آئی۔ میں سمجھا تھا کہ ان کی آواز کیا خاک نکلے گی، مگر شمع کے پہنچتے ہی وہ کیچلی سی بدل کچھ سے کچھ ہو گئے اور اتنی بلند آواز کے ساتھ غزل پڑھی کہ تمام مجلس پر چھا گئے۔ کسی شعر پر مومن خاں کو متوجہ کرتے، کسی پر مرزا نوشہ کو، کسی پر استاد ذوق کو۔ ان کی عظمت کچھ لوگوں کے دلوں پر ایسی چھائی ہوئی تھی کہ جس کو انھوں نے متوجہ کیا، اس کو تعریف کرتے ہی بن پڑی۔ ردیف سخت اور قافیہ مشکل تھا، مگر اس کی استادی کی داد دینی چاہیے کہ ان دشواریوں پر بھی ساری کی ساری غزل مرصّع کہہ گئے ہیں۔ ہائے لکھتے ہیں:
تو کیوں ہے گریہ کُناں اے مرے دلِ محزوں
نہ رو نہ رو کہ نہ تجھ کو کبھی رلائے خدا
بُتو! بتاؤ تو، کیا تم خدا کو دو گے جواب؟
خدا کے بندوں پہ یہ ظلم، بندہ ہائے خدا!
رضا پہ تیری ہوں دن رات اے صنم مصروف
جو اِس پہ تو نہیں راضی، نہ ہو، رضائے خدا
بتوں کے کوچے میں کہتا تھا کل یہی احساںؔ
یہاں کسی کا نہیں ہے کوئی سوائے خدا
جب یہ پڑھ چکے تو مرزا غالب کی باری آئی۔ یہ رنگ ہی دوسرا تھا، صبح ہو چلی تھی، شمع کے سامنے آتے ہی فرمانے لگے: صاحبو! میں بھی اپنی بھیرویں الاپتا ہوں۔ یہ کہہ کر ایسے دل کش اور مؤثر لہجے میں غزل پڑھی کہ ساری محفل محو ہو گئی۔ آواز بہت اونچی اور پر درد تھی۔ یہ معلوم ہوتا تھا کہ مجلس میں کسی کو اپنا قدردان نہیں پاتے، اس لیے غزل خوانی میں فریاد کی کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔ غزل تھی:
دلِ ناداں ! تجھے ہوا کیا ہے؟
آخر اس درد کی دوا کیا ہے؟
ہم ہیں مشتاق اور وہ بیزار
یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے!
میں بھی منہ میں زبان رکھتا ہوں
کاش پوچھو کہ مدّعا کیا ہے؟
جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود
پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے؟
یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں؟
غمزہ و عشوہ و ادا کیا ہے؟
شکنِ زلفِ عنبریں کیوں ہے؟
نگہِ چشمِ سرمہ سا کیا ہے؟
ہم کو ان سے وفا کی ہے امید
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے
ہاں بھلا کر، ترا بھلا ہو گا
اور درویش کی صدا کیا ہے!
جان تم پر نثار کرتا ہوں
میں نہیں جانتا دعا کیا ہے
میں نے مانا کہ کچھ نہیں غالبؔ
مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے!
غزل پڑھ کر مسکرائے اور کہا کہ: اب اس پر بھی نہ سمجھیں وہ، تو پھر ان سے خدا سمجھے۔ حکیم آغا جانؔ سمجھ گئے اور کہنے لگے: مرزا صاحب! غنیمت ہے کہ تم اس رنگ کو آخر ذرا سمجھے۔ غرض تعریفوں کے ساتھ ساتھ مذاق بھی ہوتا رہا اور شمع استاد ذوقؔ کے سامنے پہنچ گئی۔ استاد نے مرزا فخرو کی طرف دیکھ کر کہا: صاحبِ عالم! غزل پڑھوں یا کل جو قطعہ ہوا ہے وہ عرض کروں؟ کل رات خدا جانے کیا بات تھی کہ کسی طرح نیند نہیں آتی تھی، لوٹتے لوٹتے صبح ہو گئی، شبِ ہجر کا مزہ آ گیا، اسی کشاکش میں ایک قطعہ ہو گیا ہے، اجازت ہو تو عرض کروں۔ مرزا فخرو نے کہا: استاد! آج کا مشاعرہ سب بندوں سے آزاد ہے، غزل پڑھیے، قصیدہ پڑھیے، رباعی پڑھیے، قطعہ پڑھیے، غرض جو دل چاہے پڑھیے، ہاں کچھ نہ کچھ پڑھیے ضرور۔ استاد ذوقؔ سنبھل کر بیٹھ گئے اور قطعہ ایسی بلند اور خوش آیند آواز میں پڑھا کہ محفل گونج اٹھی اور ان کے پڑھنے کے انداز نے کلام کی تاثیر میں اور زیادہ زور پیدا کر دیا:
کہوں کیا ذوقؔ! احوالِ شبِ ہجر
کہ تھی اک اک گھڑی، سو سو مہینے
نہ تھی شب، ڈال رکھا تھا اک اندھیر
مرے بختِ سیہ کی تیرگی نے
تپِ غم شمع ساں ہوتی نہ تھی کم
اور آتے تھے پسینوں پر پسینے
یہی کہتا تھا گھبرا کر فلک سے
کہ او بے مہر، بد اختر، کمینے!
کہاں میں اور کہاں یہ سب، مگر تھے
مری جانب سے تیرے دل میں کینے
سو اس ظلمت کے پردے میں کیے ظلم
ارے ظالم! تری کینہ وری نے
عوض کس بادہ نوشی کے، مجھے آج
پڑے یہ زہر کے سے گھونٹ پینے
حواس و ہوش جو مجھ سے قریں تھے
قرینے سے ہوئے سب بے قرینے
مری سینہ زنی کا شور سن کر
پھٹے جاتے تھے ہمسایوں کے سینے
اٹھایا گاہ اور گاہے بٹھایا
مجھے بے تابی و بے طاقتی نے
کہا جب دل نے، تو کچھ کھا کے سو رہ
بہت الماس کے توڑے نگینے
نہ ٹوٹا جان کا قالب سے رشتہ
بہت ہی جان توڑی جاں کنی نے
بہت دیکھا، نہ دکھلایا ذرا بھی
طلوعِ صبح سے منہ روشنی نے
کہا جی نے مجھے یہ ہجر کی رات
یقیں ہے صبح تک دے گی نہ جینے
لگے پانی چُوانے منہ میں آنسو
پڑھی یسیٰں سرہانے بے کسی نے
مگر دن عمر کے تھوڑے سے باقی
لگا رکھے تھے میری زندگی نے
کہ قسمت سے قریبِ خانہ میرے
اذاں مسجد میں دی بارے کسی نے
بشارت مجھ کو صبحِ وصل کی دی
اذاں کے ساتھ یُمن و فرّخی نے
ہوئی ایسی خوشی اللہ اکبر!
کہ خوش ہو کر کہا یہ خود خوشی نے
مؤذن! مرحبا! بروقت بولا
تری آواز مکّے اور مدینے
آخری شعر پر پہنچے تھے کہ برابر کی مسجد سے آواز آئی: اللہ اکبر اللہ اکبر، اللہ اکبر اللہ اکبر۔ اس کے ساتھ ہی سب کے منہ سے نکلا: ’’تری آواز مکّے اور مدینے‘‘ اذان ختم ہوئی تو سب نے دعا کو ہاتھ اٹھائے۔ دعا سے فارغ ہو کر مرزا فخرو نے کہا: صاحبو! کچھ عجیب اتفاق ہے کہ فاتحۂ خیر ہی سے مشاعرہ شروع ہوا تھا اور اب فاتحۂ خیر ہی پر ختم ہوتا ہے۔ یہ کہہ کر انھوں نے دونوں شمعوں کو، جو چکر کھا کر ان کے سامنے آ گئی تھیں، بجھا دیا، شمعوں کے گل ہوتے ہی نقیبوں نے آواز دی: حضرات! مشاعرہ ختم ہوا۔ یہ سننا تھا کہ چلنے کو سب کھڑے ہو گئے۔ سب سے پہلے مرزا فخرو سوار ہوئے اور پھر سب ایک ایک کر کے رخصت ہوئے۔ آخر میں مَیں اور نواب زین العابدین خاں رہ گئے۔ میں نے ان کا شکریہ ادا کیا۔ کہنے لگے: میاں کریم الدین! یہ تمھاری نیک نیتی تھی جو اتنا بڑا مشاعرہ بخیر و خوبی ختم ہوا۔ تمھارا کام بھی بن گیا اور میرا ارمان بھی نکل گیا۔ اچھا خدا حافظ!