319546دیار عشقمرزا فرحت اللہ بیگ

سب ہی جانتے ہیں کہ شہید میرا دوست اور بڑا پکا دوست تھا۔ یہ دوسری بات ہے کہ وہ امیر تھا اور میں غریب۔ مگر دوستی میں نہ اس نے اس بات کا کبھی خیال کیا اور نہ میں نے کبھی خدا نخواستہ اس کے روپے سے کوئی فائدہ اٹھایا۔ بلکہ میں تو یوں کہوں گا اس کی دوستی سے میں ہی کچھ نقصان میں رہتا تھا۔ بورڈنگ سے شام کو ہم دونوں ٹہلنے نکلے ہیں۔ شہید کو پیاس لگی۔ کہنے لگا، ’’چلو بھئی کچھ پئیں۔‘‘ کسی دکان پر ٹھہرے۔ دو بوتلیں لیمو نیڈ کی کھلوائیں۔ ایک اس نے پی، ایک میں نے پی۔ پینے کے بعد میں نے پیسے نکال، دکان والے کو دیے۔ شہید ’’نہیں نہیں‘‘ کرتا رہا۔ مگر میں نے ایک نہ سنی۔ آپ یقین مانئے کہ اگر کوئی میرے برابر والا ہوتا تو آدھے دام ضرور دھروا لیتا۔ مگر محض اس کی امارت کی وجہ سے میں خود دام دیتا کہ کہیں کسی کو یہ کہنے کی جگہ نہ ہو کہ ’’امیر کا بیٹا سمجھ کر میں نے شہید سے دوستی کی ہے۔‘‘

بہر حال طالب علمی کے زمانے میں میرا اور اس کا خوب ساتھ رہا۔ میں نے بی اے کیا۔ اس نے بھی بی اے کیا۔ میں امتحان وکالت کی تیاری کرنے لگا اور وہ پڑھنا لکھنا چھوڑ اپنے گھر چلا گیا۔ وکالت کا امتحان دینے کے بعد میں تھوڑے دن کے لیے اس کے ہاں گیا۔ ماشاء اللہ بڑا زبردست کار خانہ تھا۔ نوکر چاکر، گاڑی گھوڑا، مکان، باغ، غرض خدا کا دیا سب کچھ موجود تھا۔ مجھ سے بڑی محبت سے ملا۔ اپنے والد سے مجھ کو ملوایا۔ خط نہ لکھنے کی شکایت کرتا رہا۔ ہر پھر کر یہی کہتا تھا کہ ’’بھائی میں بڑی مصیبت میں ہوں، گاؤں کا کام مجھ سے نہیں چل سکتا اور والد صاحب قبلہ زبر دستی مجھے اس میں ٹھونسے دیتے ہیں۔‘‘

شام کو گاڑی پر بیٹھا, مجھے سیر کرانے لے گیا۔ یہ قصبہ بہت آباد ہے۔ لیکن خرابی یہ ہے کہ ندی کے بیچوں بیچ جزیرے کی شکل میں بسا ہوا ہے۔ اس کی باتوں سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اس ندی کی طغیانی اکثر قصبے کو نقصان پہنچا چکی ہے۔ مگر لوگوں کو یہ جگہ کچھ ایسی پسند آئی ہے کہ چھوڑنے کا نام نہیں لیتے۔ غرض اسی طرح چند روز گزار کر میں اپنے گھر چلا آیا۔ وکالت شروع کی۔ خدا کے فضل سے اچھی چلی۔ کوئی دو برس گزرے ہوں گے کہ شہید کا تار آیا، لکھا تھا کہ ’’آج شام کی گاڑی سے پہنچوں گا۔ اسٹیشن پر سواری بھیج دینا۔‘‘ شام کو میں خود اپنی موٹر لے کر اسٹیشن پہنچا۔ شہید ہنستا ہوا ریل سے اترا اور کہنے لگا، ’’ارے بھئی مرزا! میں تو زندگی سے تنگ آ گیا ہوں۔ سمجھ میں نہیں آتا کیا کروں۔ ہے یہ کہ گاؤں کے حساب کتاب نے مجھے تو مار ڈالا۔ سوچا کہ چلو، تھوڑے دنوں یار کے ہاں رہ آؤ، شاید کچھ طبیعت بہل جائے۔ خیال آنا تھا کہ چل کھڑا ہوا۔ والد صاحب قبلہ روکتے بھی رہے مگر جب انہوں نے تمہارا نام سنا تو خاموش ہو گئے۔ دوسرے اگھائی کا زمانہ نہیں تھا۔ اس لیے بھی انہوں نے مجھے روکنا بے ضرورت سمجھا۔‘‘

شہید کی وجہ سے میں نے بھی اپنا پلنگ مردانہ میں منگوا لیا۔ رات کو اس ظالم نے وہ الٹے سیدھے قصے چھیڑے کہ نیند حرام کر دی۔ معلوم نہیں کہ کیوں اس زمانے میں میرے افسانے بہت پسند کیے جاتے تھے۔ شہید رہ رہ کر یہی سوال کرتا تھا کہ ’’یار یہ بتاؤ ایسے مضمون تم لکھتے کیسے ہو، میں بھی کوشش کرتا ہوں مگر جب خود مجھے اپنا مضمون پسند نہیں آتا تو بھلا دوسرے اس کو کیوں پسند کرنے لگے۔ بھئی ہم تم کو ایسا نہیں سمجھے تھے۔ تم تو چھپے رستم نکلے۔ قسم خدا کی میں اگر ایسے مضمون لکھنے لگوں تو بیڑا پار ہے۔ ایک صفحہ لکھ کر سارے دن کی کلفت دور ہو جائے۔‘‘

میں نے کہا، ’’میاں شہید! میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ مجھے خود نہیں معلوم کہ یہ مضمون کیوں کر لکھ لیتا ہوں۔ اور خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ لوگ اسے کیوں پسند کرتے ہیں۔ اگر ہماری بات مانو تو ایک صلاح دیں۔ تم شادی کر ڈالو۔ پھر گھر داری کے جھگڑوں میں پڑ کر یہ ساری مشکلیں آسان ہو جائیں گی اور مضمون لکھنے کو مواد بھی بہت کچھ مل جائے گا۔‘‘ شہید نے میرے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور کہنے لگا، ’’میاں مرزا، خدا کے لئے ایسی فال زبان تو منہ سے منت نکالو، میں اور شادی کروں۔ یوں ہی کیا کم جھگڑے میرے پیچھے لگے ہیں جو بیوی کا دم چھلا بھی اپنے ساتھ لگا لوں۔ میں تو چاہتا ہوں کہ آزاد بھی رہوں اور دل بھی بہل جائے۔‘‘ میں نے کہا، ’’حضرت یہ ذرا مشکل کام ہے۔ یہ بات تو صرف دو ہی طرح کے آدمیوں کو حاصل ہے یا دیوانوں کو یا عاشقوں کو۔ خیر دیوانہ بننا تو تمہارے بس کی بات نہیں ہے۔ ہاں عاشق ہو سکتے ہو۔ پھر کیا ہے کہ میرے دونوں میٹھے ہیں۔ آزادی الگ ملے گی اور مضمون نگار الگ ہو جاؤ گے۔ اور مضمون نگار بھی کیسے کہ رہے نام سائیں کا۔ اگر سارا ہندوستان نہ چیخ اٹھے تو میرا ذمہ۔‘‘

میں نے تو یہ بات ہنسی ہنسی میں کہی تھی مگر خدا معلوم شہید کیوں سوچ میں پڑ گیا۔ میں نے بات بدلنے کی کوشش بھی کی لیکن اس کو جو چپ لگی تو پھر میری کسی بات کا اس نے جواب نہ دیا۔ آخر باتیں کرتے کرتے مجھے بھی نیند آ گئی۔ صبح جو سو کر اٹھا، تو کیا دیکھتا ہوں کہ شہید کا پلنگ خالی پڑا ہے۔ آدمی کو بلا کر دریافت کیا۔ معلوم ہوا کہ وہ حضرت چار بجے کی گاڑی سے چل دیے۔ میں نے سب نوکروں کو ڈانٹا کہ مجھے کیوں نہ جگا لیا۔ مگر وہ بچارے کیا کرتے۔ میاں شہید نے ان سے کہہ دیا تھا کہ میں بھائی سے اجازت لے کر جا رہا ہوں۔ کیوں خوا ہ مخواہ جگا کر انہیں حیران کرتے ہو۔

میں صبح کو ہاتھ منہ دھو، ناشتہ کر دفتر میں آیا۔ کچھ موکل آ گئے تھے۔ ان سے مقدمات سمجھتا رہا۔ نو بجے کے قریب ڈاک آئی۔ خطوں کو دیکھا۔ اخبار اٹھا کر ادھر ادھر الٹا پلٹا۔ ایک جگہ موٹے موٹے حرفوں میں لکھا تھا، ’’ایک قصبہ کی تباہی۔‘‘ معلوم نہیں کیوں اس خبر کو پڑھنے کو جی چاہا۔ دو چار سطریں پڑھی ہوں گی کہ جی گھبرانے لگا اور آنکھوں کے سامنے سے حرف بھاگنے لگے۔ ہائے شہید کا سارا خاندان تباہ ہو گیا۔ سارے کا سارا قصبہ بہہ گیا۔ بھلا وہ بھی کوئی ندی میں ندی تھی جس نے یہ آفت بپا کر دی اور یہ طغیانی ہی کا کون سا موسم تھا۔ بس یہ کہو کہ ان سب بچاروں کی موت ہی آ گئی تھی۔ یا خدا بے چارے شہید پر رحم کر۔ کہیں غریب اس صدمے سے دیوانہ نہ ہو جائے۔

میں نے اسی وقت شہید کے نام تار دیا لیکن دو ہی گھنٹے کے بعد جواب آ یا کہ ’’قصبہ بالکل تباہ ہو گیا، وہاں کوئی نہیں ہے جس کو تار دیا جائے۔‘‘ انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھ کر چپ ہو گیا لیکن دل پر ایسا دھچکا لگا کہ کئی روز تک کھانا پینا حرام ہو گیا۔ رات ہے تو یہی فکر ہے، دن ہے تو یہی فکر ہے کہ اس قصبہ والوں پر کیا گزری ہوگی اور بچارے شہید پر کیا گزرے گی۔

اس واقعہ کو کچھ اوپر ایک سال ہو گیا ہے۔ آج کوئی دو بجے مجھے ایک خط ملا۔ خط ضرور شہید کا ہے۔ طرز تحریر بھی اس کی ہے۔ طریقہ مخاطبت بھی اسی کا ہے۔ املا بھی اسی کی ہے۔ انشاء بھی اسی کی ہے لیکن مضمون اس کا نہیں معلوم ہوتا۔ اب خدا کو خبر ہے کہ شہید دیوانہ ہو گیا ہے یا کوئی اور راز ہے۔ میری کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ خط نقل کیے دیتا ہوں۔ کوئی بھلے آدمی مجھے بتائیں کہ آخر یہ ہے کیا معاملہ۔ یکم اپریل سے تو یہ خیال ہوتاہے کہ اس میرے یار نے مذاق کیا ہے لیکن واقعات کا تسلسل اور عبارت کی نشست کہتی ہے کہ نہیں۔۔۔ اس میں اصلیت ہے اور ضرور اصلیت ہے۔ خواہ ہم اس کو سمجھ سکیں یا نہ سمجھ سکیں۔ بہر حال ملاحظہ ہو۔

از مسحورا
یکم اپریل سنہ رواں

یار عزیز! خدا تم سے سمجھے۔ تم نے بیٹھے بٹھائے مجھے عشق کی مصیبت میں پھنسا دیا۔ نہ اس روز تمہارے پاس آتا اور نہ ان مشکلات میں گرفتار ہوتا۔ گھر والے بہے تھے، ان کے ساتھ میں بھی بہہ جاتا۔ نہ جیتا رہتا اور نہ اس عشق کے جنجال میں پڑتا۔ تو خیر سنو، تم اس روز باتیں کرتے کرتے غین ہو گئے اور میں نے سوچنا شروع کیا کہ مرزا کی ترکیب بہت ’’چوکھی‘‘ ہے۔ چلو کہیں چل کر عاشق ہی کیوں نہ ہو جاؤ۔ اگر سچا عاشق ہوا تو پھر کہنا ہی کیا ہے۔ ا گر یوں ہی کچھ لگاؤ ہوا تو مضمون نگار ہو جاؤ گے۔ یہ بھی قسمت آزمائی ہے۔ اس کو بھی کر دیکھو۔ غرض یہی سوچتے سوچتے تین بج گئے۔ چار بجے ریل جاتی تھی۔ میں نے اٹھ کر چپکے چپکے بستر باندھنا شروع کیا۔ خبر نہیں تمہارا نوکر برہان کیوں جاگ اٹھا۔ اس نے مجھے چور سمجھا اور کیا عجب کہ وہ مجھ پر آ کر لکڑی کا وار کرتا۔ کیونکہ اس کا دبے پاؤں آنا خالی از علت نہ تھا۔ مگر جب اس نے مجھے پہچانا تو وہ کچھ گھبرا سا گیا۔

میں نے اس کو یقین دلایا کہ میں تمہاری اجازت سے جا رہا ہوں۔ صرف ایک مقدمے میں مشورہ لینے آیا تھا۔ کل پیشی ہے اگر چار بجے کی گاڑی سے نہ گیا تو نقصان ہو جائے گا۔ یہ سن کر وہ بھی اسباب سمیٹنے میں میرا شریک ہو گیا۔ اس کےسر پر سامان رکھوا کر اسٹیشن پہنچا۔ تھوڑی دیر میں گاڑی آ گئی۔ میں نے ٹکٹ لیا اور سوار ہو گیا۔ خدا کے لیے برہان کو کچھ نہ کہنا۔ اس میں اس بچارے کا کوئی قصور نہیں ہے۔ جنکشن پر اخبار خریدا۔ اس میں جو کچھ لکھا تھا وہ تم نے بھی پڑھا ہوگا۔ اب تم ہی بتاؤ جب گھر بار رہا نہ ماں باپ بھائی بہن رہے نہ مکان اندوختہ رہا نہ زمین تو پھر میں گھر جا کر کیا کرتا۔ میں اسی خیال میں حیران و پریشان بیٹھا تھا کہ مرغوب آباد سے ایک بڑے میاں سوار ہوئے۔ ایسے باتونی تھے کہ خدا کی پناہ۔ بیٹھنے کے ساتھ ہی انہوں نے میرے سگریٹ کے بکس پر قبضہ کیا اور تڑاتڑ اس طرح سگریٹ پینے شروع کیے کہ تھوڑی ہی دیر میں نو سگریٹوں کا خون کر دیا۔ ان کی باتیں کچھ ایسے مزے کی تھیں کہ میں نے بھی ان کے سامنے سے بکس اٹھانا مناسب نہ سمجھا۔

باتوں باتوں میں وہ کہنے لگے کہ ’’ہمارے مرغوب آباد سے تھوڑے فاصلے پر پہاڑوں کے بیچ میں ایک بستی ہے۔ وہاں آب و ہوا میں کچھ اس بلا کا اثر ہے کہ جہاں کسی نے وہاں قدم رکھا اور عاشق ہوا۔ اور مزا یہ ہے کہ جو وہاں جاتا ہے آنے کا نام نہیں لیتا۔ پہلے تو جانے والوں کو بڑا زور تھا۔ آج یہ گیا کل وہ گیا۔ مگر تھوڑے دنوں سے سرکا رنے وہاں جانے کی ممانعت کر دی ہے اور لوگ خود بھی وہاں جانے سے گھبراتے ہیں۔ اس لئے عاشقوں کے قافلے اب ذرا ادھر کم جاتے ہیں۔ بھئی ہمارے خیال میں تو وہاں پریاں آباد ہیں۔ وہ انسانوں پر کچھ جادو کر کے اس طرح پھانس لیتی ہیں کہ کوئی اللہ کا بندہ واپس آنے کا نام نہیں لیتا۔ اسی وجہ سے سب لوگ اس کو مسحورا کہتے ہیں۔‘‘

یہ مضمون کچھ ایسا دلچسپ تھا کہ میں سارا غم بھول گیا۔ پہلے تو میں یہ سمجھا کہ بڈھا یوں ہی غپیں مار رہا ہے لیکن جب اس بھلے مانس نے قسمیں کھائیں اور اتے پتے کی باتیں بیان کیں، اس وقت مجھے بھی کچھ یقین سا آ گیا۔ سوچا کہ’’میاں شہید جب زندگی گزارنے کا بس یہی ایک رستہ رہ گیا ہے۔ اگر بڈھے کی بات صحیح نکلی تو اچھی گزر جائے گی۔‘‘ غرض یہ سوچ کر میں دوسرے اسٹیشن پر اتر گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد ڈاؤن ٹرین بھی مل گئی۔ اس میں سوار ہو مرغوب آباد پہنچا۔ ریل سے اترا۔ سامان اسٹیشن ماسٹر کی تحویل میں دیا۔ صبح ہو چکی تھی۔

اسٹیشن پر تانگے والے کھڑے تھے۔ میں نے ایک سے کہا، ’’میاں تانگے والے، مجھے مسحورا لے چلو گے؟‘‘ یہ سن کر وہ میرا منہ تکنے لگا۔ میں نے کہا، ’’کیوں آخر مسحورا جانا کوئی جرم ہے؟‘‘ اس نے کہا، ’’اجی جائیے۔ پرے ہٹئے، آپ ہمیں پولیس میں گرفتار کرانا چاہتے ہیں۔ اب کہا تو کہا۔ آئندہ یہ لفظ منہ سے نہ نکالنا ورنہ پکڑے جاؤگے۔‘‘ خیر ان باتوں سے یہ تو معلوم ہو گیا کہ بڈھے کی باتوں میں کچھ اصلیت ضرور تھی۔ سارا دن میں نے ادھر ادھر گھوم کر کاٹا اور چپکے چپکے یکے والوں، تانگہ والوں، گاڑی بانوں اور چھکڑے والوں سے مسحورا چلنے کو کہتا رہا مگر کسی نے بھی چلنے کی حامی نہ بھری۔

آخر شام کو ایک بڈھے گاڑی بان نے کہا، ’’میاں میں لے تو چلوں گا مگر ایک شرط ہے کہ مسحورا سے پانچ میل ادھر چھوڑ دوں گا، آگے آپ جانیں اور آپ کا کام جانے۔ رات اندھیری ہے۔ آپ نو بجے مجھ سے گاؤں کے باہر ملئے۔ میں گاڑی جھاڑیوں میں چھپا دوں گا۔ جب گاؤں کے سب لوگ سو جائیں گے، اس وقت ہم دونوں پہاڑوں کی طرف نکل کھڑے ہوں گے۔ مگر میاں میں پچاس روپے لوں گا۔ آپ جانتے ہیں کہ اگر کسی کو ذرا بھی خبر ہو گئی کہ میں کسی مسافر کو مسحورے کی طر ف لے گیا ہوں تو پھر میری خیر نہیں۔‘‘

بہر حال بڑے میاں سے سب کچھ ٹھیرا، میں اسٹیشن گیا۔ تھوڑا سا سامان لے، مختصر سے بچھونے میں لپیٹا۔ ٹرنک اور باقی سامان کرایہ دے اسٹیشن ماسٹر کے سپرد کر دیا۔ ہوٹل میں کچھ کھانا کھایا، کچھ ساتھ رکھا اور نو بجے گاؤں کے باہر پہنچ گیا۔ یہاں گاڑی بان صاحب میرا انتظار کر رہے تھے۔ انہوں نے پہلے تو پورے پچاس روے مجھ سے گنوا لیے۔ اس کے بعد میرا سامان اپنی کمر پر لاد ایک طرف کو چلے۔ میں بھی ساتھ ہو گیا۔ کوئی ایک میل کے فاصلے پر جھاڑیاں شروع ہوئیں۔ انہیں جھاڑیوں میں ایک طرف ان کے بیل بندھے تھے اور بہلی کھڑی تھی۔ کوئی دس ساڑھے دس بجے تک میں بہلی میں بستر بچھا لیٹا رہا۔ اور گاڑی بان صاحب کمبل اوڑھے دم سادھے ایک طرف پڑے رہے۔ گیارہ کا عمل ہوگا کہ انہوں نے مجھ سے کہا، ’’میاں چلئے وقت ہو گیا ہے۔‘‘ میں نے کہا، ’’چلو میں تو پہلے سے تیار ہوں۔‘‘ انہوں نے بہلی میں بیل لگائے۔ چارہ وغیرہ سمیٹ کر سانگی میں بھرا۔ بہلی کو پگ ڈنڈی پر ڈالا اور سنسان رات میں یہ دو آدمیوں کا قافلہ خدا معلوم کس طرف روانہ ہوا۔

رات کی ٹھنڈی ٹھڈی ہوا، ہری ہری گھانس کی خوشبو اور بہلی کے نرم نرم ہچکولوں سے میری آنکھ لگ گئی۔ میں مزے کی نیند سو رہا تھا کہ گاڑی بان نے مجھے جھنجھوڑ کر اٹھایا اور کہا، ’’لیجئے میاں۔ اتریے۔ اب اس سے آگے ہم نہیں جاتے۔ دیکھئے اب بھی موقع ہے۔ واپس چلے چلئے پھر یہ نہ کہئے گا کہ اس بڈھے نے میری مٹی خراب کی۔‘‘ میں نے بہت کہا، ’’بڑے میاں ذرا اور آگے لے چلو مجھے راستہ معلوم نہیں۔ اندھیری رات ہے۔ خدا معلوم کدھر کا کدھر نکل جاؤں کچھ اور لے لینا۔‘‘

مگر وہ بڈھا کب ماننے والا تھا کہنے لگا، ’’اجی اب اترتے ہو یا نہیں، مجھے صبح ہونے سے پہلے گھر پہنچناہے۔ کیا اپنے ساتھ مجھے بھی تباہ کرنے کا ارادہ ہے۔ اگر نہیں اترتے تو میں گاڑی پھیرتا ہوں۔ قہر درویش بر جان درویش۔ بہلی سے اترا، سامان کی پوٹلی کندھے پر رکھی۔ بڑے میاں سے راستہ پوچھا اور عاشق ہونے کے لیے اس شان سے روانہ ہو گیا۔ گاڑی بان گاڑی پھیر اس زناٹے سے سر پر پاؤں رکھ کر بھاگا کہ تھوڑی ہی دیر میں نظروں سے غائب ہو گیا۔ کچھ دیر تک تو گاڑی کی کھڑ کھڑ سنائی بھی دی، اس کے بعد بالکل سناٹا ہو گیا۔

جہاں گاڑی بان نے مجھے چھوڑا تھا، وہاں سے پہاڑ کی چڑھائی ختم ہو کر اتار شروع ہوتا تھا۔ چاروں طرف ایسا اندھیرا گھپ تھا کہ ہاتھ کو ہاتھ نہیں سوجھتا تھا۔ لمبی لمبی گھانس، اونچے اونچے درخت اور کالی کالی چٹانوں نے ایک عجیب وحشت ناک منظر پیدا کر دیا تھا۔ میں ڈرپوک نہیں ہوں لیکن میں سچ کہتا ہوں کہ کئی دفعہ خیال آیا، میاں شہید واپس چلو۔ بھئی۔ تم خواہ مخواہ بیٹھے بٹھائے کس مصیبت میں گرفتار ہوئے۔ پھر سوچا کہ یار یہاں تو نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن کی صورت ہے۔ واپس جاتے ہو تو مرغوب آباد ہی کا راستہ تمہیں کون سا معلوم ہے۔ اب پڑی ہے تو اٹھاؤ۔ یہ ساری مصیبت تم نے اپنے ہی ہاتھوں مول لی ہے۔

غرض سوچتا تھا اور قدم اٹھائے چلا جاتا تھا۔ خدا معلوم اسی کش مکش خیال میں کتنی دور نکل گیا۔ کوئی دو ڈھائی گھنٹے بعد صبح ہونی شروع ہوئی۔ دھیمی دھیمی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چلی۔ آہستہ آہستہ درختوں نے جھومنا اور میٹھے میٹھے سروں میں پرندوں نے گانا شروع کیا۔ دور کی چیزوں نے رفتہ رفتہ صورت اختیار کی۔ مشرق کی طرف کالے بادلوں کے کنارے گلابی ہوئے۔ کہر نے اپنا سفید لبادہ سمیٹا۔ شبنم نے رخصت ہونے کی تیاری کی۔ سورج کا سنہرا تھال اچک کر افق پر آیا۔ لیجئے صبح ہو گئی۔

سامنے ہی ایک چھوٹا سا گاؤں تھا مگر کسی فرش سلیقہ شخص نے کچھ اس طرح بسایا تھا کہ دیکھنے سے دل میں کھپا جاتا تھا۔ صبح کے سہانے وقت میں اس کے سفید سفید مکانات، ہر مکان کے سامنے چھوٹے چھوٹے بغیچے، صاف، صاف، ستھری ستھری پگ ڈنڈیاں، ہرے بھرے کھیت، کھیتوں کے کنارے پر پانی سے لبریز پتلی پتلی نالیاں، دور فاصلے پر اجلی ریتی اور اس میں ندی کا نیلگوں پانی کچھ ایسی بہار دے رہا تھا کہ بیان نہیں کر سکتا۔ میں جہاں تھا وہیں ٹھیر گیا۔ اور بڑی دیر تک اس دلچسپ اور دل کش منظر کو دیکھتا رہا۔ آخر بسم اللہ کہہ کر قدم اٹھایاا ور تھوڑی دیر میں گاؤں میں پہنچ گیا۔ ابھی دوسرے ہی مکان تک پہنچا تھا کہ دروازہ کھلا اور ایک ایسی آفت جان ہستی اس میں سے نکلی کہ جس غرض سے میں چلا تھا وہ حاصل ہو گئی۔ اس کے بعد کچھ نہ پوچھو کہ کیا ہوا اور کیوں کر ہوا۔ بہر حال خدا کا شکر ہے کہ میری محنت ٹھکانے لگ گئی۔

خدا اس کھوسٹ مسافر اور بڈھے گاڑی بان کا بھلا کرے کہ ان دونوں نے مجھے جنت میں پہنچا دیا۔ اب نہ یہاں سے کوئی مجھے جانے دیتا ہے اور نہ خود جانے کو میرا جی چاہتا ہے۔ نہ مجھے یہاں کا حال بیان کرنے کا یارا ہے اور نہ تمہیں اس کے سننے اور سمجھنے کی قدرت۔ بس ہم تو یہ جانتے ہیں کہ

اگر فردوس بروئے زمین است
ہمیں است و ہمیں است و ہمیں است

جاؤ یار تم ہی گھاٹے میں رہے۔ سارے دن سر مغزنی کرتے ہو اور راتوں کو بھی آرام سے نیند نہیں آتی۔والسلام

تمہارا پرانا دوست
شہید!

مکرر۔ سال بھر کی کوشش کے بعد اس خط کو ڈاک میں ڈلوانے کی صورت نکلی ہے۔ خدا کرے ڈاک میں پڑ جائے اور تم تک پہنچ جائے۔ شہید

لیجئے۔ یہ ہے میاں شہید کا خط۔ اب آپ ہی فرمائیے کہ ہے یہ کیا معاملہ۔ میں نے تمام ریلوے گائیڈ دیکھ ڈالے۔ مجھے تو کسی مرغوب آباد اسٹیشن کا پتہ نہ چلا۔ ڈاک خانوں میں دریافت کیا۔ تار گھر والوں سے پوچھا۔ خط کی بگڑی ہوئی مہر کو پڑھوانے کی کوشش کی۔ مگر میری ساری محنت اکارت گئی۔ آخر تھک تھکا کر بیٹھ رہا۔ پھر خیال آیا کہ چلو کسی رسالے میں سارا واقعہ چھپوا دو، شاید کوئی اللہ کا بندہ اس معمے کو حل کر سکے۔ اب دیکھئے آپ لوگ بھی اس کو حل کر سکتے ہیں یا نہیں۔ اس سے یہ غرض نہیں ہے کہ میں خود مسحورا جانا چاہتا ہوں بلکہ یہ معلوم کرنا ہے کہ آخر یہ عقل مند گیا کہاں ہے اور ہے کس حال میں۔ آپ بھی غور کیجئے میں بھی غور کرتا ہوں۔ شاید کسی کی عقل لڑ جائے اور شہید کا پتا مل جائے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ شہید کا کوئی اور خط آئے اور مسحورا کا کچھ اور اتا پتا معلوم ہو۔ بہر حال اگر اس کا خط آیا تو وہ بھی چھپوا دوں گا تاکہ میں اور آپ دونوں اس خلجان سے نجات پائیں۔


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.