دیا جو ساقی نے ساغر مے دکھا کے آن اک ہمیں لبالب

دیا جو ساقی نے ساغر مے دکھا کے آن اک ہمیں لبالب
by نظیر اکبر آبادی

دیا جو ساقی نے ساغر مے دکھا کے آن اک ہمیں لبالب
اگرچہ مے کش تو ہم نئے تھے پہ لب پہ رکھتے ہی پی گئے سب

چلتے ہیں دینے کو ہم جسے دل وہ ہنس کے لے لے بس اب ہمیں تو
یہی ہے خواہش یہی تمنا یہی ہے مقصد یہی ہے مطلب

کبھی جو آتے ہیں دیکھنے ہم تو آپ تیوری کو ہیں چڑھاتے
جو ہر دم آویں تو کیجے خفگی میاں ہم آتے ہیں ایسے کب کب

نہ پی تھی ہم نے یہ مے تو جب تک نظیرؔ ہم میں تھا دین و ایماں
لگا لبوں سے وہ جام پھر تو کہاں کا دین اور کہاں کا مذہب

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse