دیتا ہے مجھ کو چرخ کہن بار بار داغ
دیتا ہے مجھ کو چرخ کہن بار بار داغ
اف ایک میرا سینہ ہے اس پر ہزار داغ
دیتے ہیں میرے سینے میں کیا ہی بہار داغ
کھائے نہ ان کو دیکھ کے کیوں لالہ زار داغ
لالہ کرے گا دل کی مرے کیا برابری
اس پر ہے ایک داغ یہاں بے شمار داغ
دنیا کے سارے صدمے ہیں کم ہجر یار سے
دے مدعی کو بھی نہ یہ پروردگار داغ
رکھتا ہے عشق لالہ رخاں دل میں وہ نہاں
سینے پہ ماہتاب کے ہے آشکار داغ
ظلمت سے دی نجات دل داغ دار نے
روشن مثال شمع ہے زیر مزار داغ
ہر دم نہ کیوں لگائے رکھیں سینے سے اسے
اک ماہ رو کے عشق کی ہے یادگار داغ
قاتل مرے لہو نے بھی کیا گل کھلائے ہیں
دامن پہ تیرے دیتے ہیں کیا ہی بہار داغ
جو ظلم چاہے رکھ دل رنجورؔ پر روا
دے تو مگر اسے نہ جدائی کا یار داغ
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |