دیت اس قاتل بے رحم سے کیا لیجئے گا
دیت اس قاتل بے رحم سے کیا لیجئے گا
اپنی ہی آنکھوں سے اب خون بہا لیجئے گا
پھر نہیں ہونے کی تقصیر تو ایسی ہرگز
اب کسی طرح میری جان بچا لیجئے گا
اس قدر سنگ دلی تم کو نہیں ہے لازم
کسی مظلوم کی گاہے تو دعا لیجئے گا
لخت دل خاک میں دیتا ہے کوئی بھی رہنے
گر پڑے اشک تو آنکھوں سے اٹھا لیجئے گا
پھر نہ پچھتاو کہیں بعد مرے جانے کے
گالیاں اور ہوں باقی تو سنا لیجئے گا
روٹھ کر جائے کوئی اپنے سے پیارے تو وہیں
چاہیئے آپ گلے پڑ کے منا لیجئے گا
اپنے مشتاق کو لازم ہے کہ گاہے ماہے
غیر کی آنکھ بچا گھر میں بلا لیجئے گا
ایک مدت ہوئی کچھ حرف و حکایت ہی نہیں
جی میں ہے آج تو باتوں میں لگا لیجئے گا
کسی جلسے میں جو ایمانؔ کہو تو جانیں
گھر میں یوں بیٹھے ہوئے شعر بنا لیجئے گا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |