دیجئے رخصت بوسہ نہیں لے بیٹھیں گے
دیجئے رخصت بوسہ نہیں لے بیٹھیں گے
پیارے یہ یاد رہے جان بھی دے بیٹھیں گے
پائے دیوار کھڑے رہنے نہ دیجے بہتر
اور ہٹ کر ترے کوچہ میں پرے بیٹھیں گے
بے سر و پا ہیں کہاں جائیں گے جوں نقش قدم
خاک پا ہم ترے قدموں ہی تلے بیٹھیں گے
آتش عشق ترے سوختگاں جوں شعلہ
جب تلک ہیں کوئی آرام لئے بیٹھیں گے
روبرو اس کے اثرؔ آپ بہ ایں زندہ دلی
کب تلک دل کے تئیں مارے ہوئے بیٹھیں گے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |