دیدۂ اشک بار ہے اپنا

دیدۂ اشک بار ہے اپنا
by میراجی

دیدۂ اشک بار ہے اپنا
اور دل بے قرار ہے اپنا

رشک صحرا ہے گھر کی ویرانی
یہی رنگ بہار ہے اپنا

چشم گریاں سے چاک داماں سے
حال سب آشکار ہے اپنا

ہائے ہو میں ہر ایک کھویا ہے
کون یاں غم گسار ہے اپنا

صرف وہ ایک سب کے ہیں مختار
ان پہ کیا اختیار ہے اپنا

بزم سے ان کی جب سے نکلا ہے
دل غریب الدیار ہے اپنا

ان کو اپنا بنا کے چھوڑیں گے
بخت اگر سازگار ہے اپنا

پاس تو کیا ہے اپنے پھر بھی مگر
اس پہ سب کچھ نثار ہے اپنا

ہم کو ہستی رقیب کی منظور
پھول کے ساتھ خار ہے اپنا

ہے یہی رسم مے کدہ شاید
نشہ ان کا خمار ہے اپنا

جیت کے خواب دیکھتے جاؤ
یہ دل بد قمار ہے اپنا

کیا غلط سوچتے ہیں میراجیؔ
شعر کہنا شعار ہے اپنا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse