دید کی سد راہ ہے یہ مژہ
دید کی سد راہ ہے یہ مژہ
خار پائے نگاہ ہے یہ مژہ
نت تقاطر ہی اس سے رہتا ہے
رگ ابر سیاہ ہے یہ مژہ
چشم میری وہ بحر ہیں مواج
جس کے لب کی گیاہ ہے یہ مژہ
آنکھیں تیری وہ لڑنے والی ہیں
ساتھ جن کے سپاہ ہے یہ مژہ
ہر طرح دل میں کھب رہی ہے ترے
خواہ برچھی ہے خواہ ہے یہ مژہ
آنکھیں مل مل چھپاتے ہو تم کیوں
دیکھنا کیا گناہ ہے یہ مژہ
دل میں کانٹا سا کچھ چبھے ہے مرے
کہ حسنؔ کس کی آہ ہے یہ مژہ
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |