دید کی سد راہ ہے یہ مژہ

دید کی سد راہ ہے یہ مژہ
by میر حسن دہلوی
316611دید کی سد راہ ہے یہ مژہمیر حسن دہلوی

دید کی سد راہ ہے یہ مژہ
خار پائے نگاہ ہے یہ مژہ

نت تقاطر ہی اس سے رہتا ہے
رگ ابر سیاہ ہے یہ مژہ

چشم میری وہ بحر ہیں مواج
جس کے لب کی گیاہ ہے یہ مژہ

آنکھیں تیری وہ لڑنے والی ہیں
ساتھ جن کے سپاہ ہے یہ مژہ

ہر طرح دل میں کھب رہی ہے ترے
خواہ برچھی ہے خواہ ہے یہ مژہ

آنکھیں مل مل چھپاتے ہو تم کیوں
دیکھنا کیا گناہ ہے یہ مژہ

دل میں کانٹا سا کچھ چبھے ہے مرے
کہ حسنؔ کس کی آہ ہے یہ مژہ


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.