دیوالی (II)

316079دیوالینظیر اکبر آبادی

دوستو کیا کیا دوالی میں نشاط و عیش ہے
سب مہیا ہے جو اس ہنگام کے شایان ہے
اس طرح ہیں کوچہ و بازار پر نقش و نگار
ہو عیاں حسن نگارستاں کی جن سے خوب رے
گرم جوشی اپنی با جام چراغاں لطف سے
کیا ہی روشن کر رہی ہے ہر طرف روغن کی مے
مائل سیر چراغاں نخل ہر جا دم بدم
حاصل نظارہ حسن شمع رویاں پے بہ پے
عاشقاں کہتے ہیں معشوقوں سے با عجز و نیاز
ہے اگر منظور کچھ لینا تو حاضر ہیں روپے
گر مکرر عرض کرتے ہیں تو کہتے ہیں وہ شوخ
ہم سے لیتے ہو میاں تکرار و حجت تا بہ کے
کہتے ہیں اہل قمار آپ میں گرم اختلاط
ہم تو ڈب میں سو رپے رکھتے ہیں تم رکھتے ہو کے
جیت کا پڑتا ہے جس کا دانوں وہ کہتا ہے یوں
سوئے دست راست ہے میرے کوئی فرخندہ پے
ہے دسہرے میں بھی یوں گو فرحت و زینت نظیرؔ
پر دیوالی بھی عجب پاکیزہ تر تیوہار ہے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.