دیوانہ ہوں مجھے نہ تساہل سے باندھئے

دیوانہ ہوں مجھے نہ تساہل سے باندھئے
by جوشش عظیم آبادی

دیوانہ ہوں مجھے نہ تساہل سے باندھئے
ہاتھوں کو خوب رشتۂ کاکل سے باندھئے

اہل چمن کو اتنا پریشاں نہ کیجئے
بکھرے ہوئے یہ بال ہیں سنبل سے باندھئے

ہرگز نہ ہوجیے کس و ناکس سے ملتجی
اس غم کدے میں دھیان توکل سے باندھئے

یہ خوب جانتا ہوں کسی کو کرو گے قتل
خنجر کمر میں آپ تجاہل سے باندھئے

اس گلشن جہان میں بد عہد ہیں سبھی
بلبل یہاں نہ عہد کسی گل سے باندھئے

احوال ایک ہے دل وحشت سرشت کا
یا جز سے باندھئے اسے یا کل سے باندھئے

ؔجوشش تو اس طرح کی زمینوں میں یاد رکھ
مضموں جو باندھئے سو تأمل سے باندھئے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse