دیوانے ہوئے صحرا میں پھرے یہ حال تمہارے غم نے کیا

دیوانے ہوئے صحرا میں پھرے یہ حال تمہارے غم نے کیا
by حفیظ جونپوری

دیوانے ہوئے صحرا میں پھرے یہ حال تمہارے غم نے کیا
افسوس مگر اس بات کا ہے کیا تم نے کیا کیا ہم نے کیا

جب بھڑکی ہے آتش داغ جگر سرد اس کو دیدۂ نم نے کیا
شاداب چمن میں پھولوں کو ہر شام و سحر شبنم نے کیا

اچھی ہوئی اب کہ بری یہ ہوئی ان باتوں کو خود ہی سمجھو
الزام ہمیں کیا دیتے ہو جو تم نے کہا وہ ہم نے کیا

تاریک ہوئی ساری دنیا کیا موت ہوئی مجھ بیکس کی
کم ایسے ہوئے ہیں شہید وفا غم جن کا اک عالم نے کیا

قسمت کی طرح یہ دل نہ پھرا کعبے سے بھی الٹے پاؤں پھرے
آنکھوں میں گلی وہ پھرنے لگی بے خود یہ طواف حرم نے کیا

کیا ایسی وفا پر ناز کروں جو باعث ہو رسوائی کی
یہ بات ہوئی مر جانے کی بد نام کسی کو ستم نے کیا

غربت میں تمہاری تربت پر رونے کو حفیظؔ آتا کوئی
اب شکر کرو آنسو تو پچھے چھڑکاؤ بھی ابر کرم نے کیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse