دیوان غالب/غزلیات/ردیف د تا ز

55382دیوان غالب — ردیف د تا ز
مرزا اسد اللہ خان غالب



حسن غمزے کی کشاکش سے چھٹا میرے بعد
بارے آرام سے ہیں اہلِ جفا میرے بعد

منصبِ شیفتگی کے کوئی قابل نہ رہا
ہوئی معزولئ انداز و ادا میرے بعد

شمع بجھتی ہے تو اس میں سے دھواں اٹھتا ہے
شعلۂ عشق سیہ پوش ہوا میرے بعد

خوں ہے دل خاک میں احوالِ بتاں پر، یعنی
ان کے ناخن ہوۓ محتاجِ حنا میرے بعد

درخورِ عرض نہیں جوہرِ بیداد کو جا
نگہِ ناز ہے سرمے سے خفا میرے بعد

ہے جنوں اہلِ جنوں کے لۓ آغوشِ وداع
چاک ہوتا ہے گریباں سے جدا میرے بعد

کون ہوتا ہے حریفِ مۓ مرد افگنِ عشق
ہے مکّرر لبِ ساقی میں صلا* میرے بعد

غم سے مرتا ہوں کہ اتنا نہیں دنیا میں کوئی
کہ کرے تعزیتِ مہر و وفا میرے بعد

آۓ ہے بے کسئ عشق پہ رونا غالب
کس کے گھر جاۓ گا سیلابِ بلا میرے بعد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

  • نسخۂ حمیدیہ میں ہے ’لبِ ساقی پہ‘۔ اکثر نسخوں میں بعد میں یہی املا ہے۔
  • نسخۂ مہر، آسی اور باقی نسخوں میں لفظ 'پہ' ہے۔


ہلاکِ بے خبری نغمۂ وجود و عدم
جہان و اہلِ جہاں سے جہاں جہاں آباد


تجھ سے مقابلے کی کسے تاب ہے ولے
میرا لہو بھی خوب ہے تیری حنا کے بعد


بلا سے ہیں جو یہ پیشِ نظر در و دیوار
نگاہِ شوق کو ہیں بال و پر در و دیوار

وفورِ عشق نے کاشانے کا کیا یہ رنگ
کہ ہو گۓ مرے دیوار و در در و دیوار

نہیں ہے سایہ، کہ سن کر نوید مَقدمِ یار
گۓ ہیں چند قدم پیشتر در و دیوار

ہوئی ہے کس قدر ارزانئ مۓ جلوہ
کہ مست ہے ترے کوچے میں ہر در و دیوار

جو ہے تجھے سرِ سوداۓ انتظار، تو آ
کہ ہیں دکانِ متاعِ نظر در و دیوار

ہجومِ گریہ کا سامان کب کیا میں نے
کہ گر پڑے نہ مرے پاؤں پر در و دیوار

وہ آ رہا مرے ہمساۓ میں، تو ساۓ سے
ہوۓ فدا در و دیوار پر در و دیوار

نظر میں کھٹکے ہے بِن تیرے گھر کی آبادی
ہمیشہ روتے ہیں ہم دیکھ کر در و دیوار

نہ پوچھ بے خودئِ عیشِ مَقدمِ سیلاب
کہ ناچتے ہیں پڑے سر بسر در و دیوار

نہ کہہ کسی سے کہ غالب نہیں زمانے میں
حریف رازِ محبت مگر در و دیوار

گھر جب بنا لیا ترے در پر کہے بغیر
جانے گا اب بھی تو نہ مرا گھر کہے بغیر؟

کہتے ہیں جب رہی نہ مجھے طاقتِ سخن
’جانوں کسی کے دل کی میں کیونکر کہے بغیر‘

کام اس سے آ پڑا ہے کہ جس کا جہان میں
لیوے نہ کوئی نام ستم گر کہے بغیر

جی میں ہی کچھ نہیں ہے ہمارے وگرنہ ہم
سر جاۓ یا رہے، نہ رہیں پر کہے بغیر

چھوڑوں گا میں نہ اس بتِ کافر کا پوجنا
چھوڑے نہ خلق گو مجھے کافَر کہے بغیر

مقصد ہے ناز و غمزہ ولے گفتگو میں کام
چلتا نہیں ہے دُشنہ و خنجر کہے بغیر

ہر چند ہو مشاہدۂ حق کی گفتگو
بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر

بہرا ہوں میں۔ تو چاہیۓ، دونا ہوں التفات
سنتا نہیں ہوں بات مکرّر کہے بغیر

غالب نہ کر حضور میں تو بار بار عرض
ظاہر ہے تیرا حال سب اُن پر کہے بغیر


کیوں جل گیا نہ، تابِ رخِ یار دیکھ کر
جلتا ہوں اپنی طاقتِ دیدار دیکھ کر

آتش پرست کہتے ہیں اہلَ جہاں مجھے
سرگرمِ نالہ ہاۓ شرربار دیکھ کر

کیا آبروۓ عشق، جہاں عام ہو جفا
رکتا ہوں تم کو بے سبب آزار دیکھ کر

آتا ہے میرے قتل کو پَر جوشِ رشک سے
مرتا ہوں اس کے ہاتھ میں تلوار دیکھ کر

ثابت ہوا ہے گردنِ مینا پہ خونِ خلق
لرزے ہے موجِ مے تری رفتار دیکھ کر

وا حسرتا کہ یار نے کھینچا ستم سے ہاتھ
ہم کو حریصِ لذّتِ آزار دیکھ کر

بِک جاتے ہیں ہم آپ، متاعِ سخن کے ساتھ
لیکن عیارِ طبعِ خریدار دیکھ کر

زُنّار باندھ، سبحۂ صد دانہ توڑ ڈال
رہرو چلے ہے راہ کو ہموار دیکھ کر

ان آبلوں سے پاؤں کے گھبرا گیا تھا میں
جی خوش ہوا ہے راہ کو پُر خار دیکھ کر

کیا بد گماں ہے مجھ سے، کہ آئینے میں مرے
طوطی کا عکس سمجھے ہے زنگار دیکھ کر

گرنی تھی ہم پہ برقِ تجلّی، نہ طو ر پر
دیتے ہیں بادہ' ظرفِ قدح خوار' دیکھ کر

سر پھوڑنا وہ! 'غالب شوریدہ حال' کا
یاد آگیا مجھے تری دیوار دیکھ کر


لرزتا ہے مرا دل زحمتِ مہرِ درخشاں پر
میں ہوں وہ قطرۂ شبنم کہ ہو خارِ بیاباں پر

نہ چھوڑی حضرتِ یوسف نے یاں بھی خانہ آرائی
سفیدی دیدۂ یعقوب کی پھرتی ہے زنداں پر

فنا "تعلیمِ درسِ بے خودی" ہوں اُس زمانے سے
کہ مجنوں لام الف لکھتا تھا دیوارِ دبستاں پر

فراغت کس قدر رہتی مجھے تشویش مرہم سے
بہم گر صلح کرتے پارہ ہاۓ دل نمک داں پر

نہیں اقلیم الفت میں کوئی طومارِ ناز ایسا
کہ پشتِ چشم سے جس کی نہ ہووے مُہر عنواں پر

مجھے اب دیکھ کر ابرِ شفق آلودہ یاد آیا
کہ فرقت میں تری آتش برستی تھی گلِستاں پر

بجُز پروازِ شوقِ ناز کیا باقی رہا ہوگا
قیامت اِک ہواۓ تند ہے خاکِ شہیداں پر

نہ لڑ ناصح سے، غالب، کیا ہوا گر اس نے شدّت کی
ہمارا بھی تو آخر زور چلتا ہے گریباں پر


ہے بس کہ ہر اک ان کے اشارے میں نشاں اور
کرتے ہیں مَحبّت تو گزرتا ہے گماں اور

یارب وہ نہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے مری بات
دے اور دل ان کو، جو نہ دے مجھ کو زباں اور

ابرو سے ہے کیا اس نگہِ ناز کو پیوند
ہے تیر مقرّر مگر اس کی ہے کماں اور

تم شہر میں ہو تو ہمیں کیا غم، جب اٹھیں گے
لے آئیں گے بازار سے جا کر دل و جاں اور

ہر چند سُبُک دست ہوۓ بت شکنی میں
ہم ہیں، تو ابھی راہ میں ہیں سنگِ گراں اور

ہے خوںِ جگر جوش میں دل کھول کے روتا
ہوتے جو کئی دیدۂ خو نبانہ فشاں اور

مرتا ہوں اس آواز پہ ہر چند سر اڑ جاۓ
جلاّد کو لیکن وہ کہے جائیں کہ ’ہاں اور‘

لوگوں کو ہے خورشیدِ جہاں تاب کا دھوکا
ہر روز دکھاتا ہوں میں اک داغِ نہاں اور

لیتا۔ نہ اگر دل تمھیں دیتا، کوئی دم چین
کرتا۔جو نہ مرتا، کوئی دن آہ و فغاں اور

پاتے نہیں جب راہ تو چڑھ جاتے ہیں نالے
رُکتی ہے مری طبع۔ تو ہوتی ہے رواں اور

ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھّے
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے اندازِ بیاں اور


صفاۓ حیرت آئینہ ہے سامانِ زنگ آخر
تغیر " آبِ برجا ماندہ" کا پاتا ہے رنگ آخر

نہ کی سامانِ عیش و جاہ نے تدبیر وحشت کی
ہوا جامِ زُمرّد بھی مجھے داغ پِلنگ آخر


جنوں کی دست گیری کس سے ہو گر ہو نہ عریانی
گریباں چاک کا حق ہو گیا ہے میری گردن پر

بہ رنگِ کاغذِ آتش زدہ نیرنگِ بے تابی
ہزار آئینہ دل باندھے ہے بالِ یک تپیدن پر

فلک سے ہم کو عیشِ رفتہ کا کیا کیا تقاضا ہے
متاعِ بُردہ کو سمجھے ہوۓ ہیں قرض رہزن پر

ہم اور وہ بے سبب "رنج آشنا دشمن" کہ رکھتا ہے
شعاعِ مہر سے تُہمت نگہ کی چشمِ روزن پر

فنا کو سونپ گر مشتاق ہے اپنی حقیقت کا
فروغِ طالعِ خاشاک ہے موقوف گلخن پر

اسد بسمل ہے کس انداز کا، قاتل سے کہتا ہے
’تو مشقِ ناز کر، خونِ دو عالم میری گردن پر‘


ستم کش مصلحت سے ہوں کہ خوباں تجھ پہ عاشق ہیں
تکلـّف بـر طـرف! مـل جائـے گا تـجـھ سـا رقیـب آخــر


لازم تھا کہ دیکھو مرا رستہ کوئی دِن اور
تنہا گئے کیوں؟ اب رہو تنہا کوئی دن اور

مٹ جائےگا سَر ،گر، ترا پتھر نہ گھِسے گا
ہوں در پہ ترے ناصیہ فرسا کوئی دن اور

آئے ہو کل اور آج ہی کہتے ہو کہ ’جاؤں؟‘
مانا کہ ھمیشہ نہیں اچھا کوئی دن اور

جاتے ہوئے کہتے ہو ’قیامت کو ملیں گے‘
کیا خوب! قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور

ہاں اے فلکِ پیر! جواں تھا ابھی عارف
کیا تیرا بگڑ تا جو نہ مرتا کوئی دن اور

تم ماہِ شبِ چار دہم تھے مرے گھر کے
پھر کیوں نہ رہا گھر کا وہ نقشا کوئی دن اور

تم کون سے ایسے تھے کھرے داد و ستد کے
کرتا ملکُ الموت تقاضا کوئی دن اور

مجھ سے تمہیں نفرت سہی، نیر سے لڑائی
بچوں کا بھی دیکھا نہ تماشا کوئی دن اور

گزری نہ بہرحال یہ مدت خوش و ناخوش
کرنا تھا جواں مرگ گزارا کوئی دن اور

ناداں ہو جو کہتے ہو کہ ’کیوں جیتے ہیں غالب‘
قسمت میں ہے مرنے کی تمنا کوئی دن اور



حریفِ مطلبِ مشکل نہیں فسونِ نیاز
دعا قبول ہو یا رب کہ عمرِ خضر دراز

نہ ہو بہ ہرزہ، بیاباں نوردِ وہمِ وجود
ہنوز تیرے تصوّر میں ہےنشیب و فراز

وصالِ جلوہ تماشا ہے پر دماغ کہاں!
کہ دیجئے آئینۂ انتظار کو پرواز

ہر ایک ذرّۂ عاشق ہے آفتاب پرست
گئی نہ خاک ہوۓ پر ہواۓ جلوۂ ناز

نہ پوچھ وسعتِ مے خانۂ جنوں غالب
جہاں یہ کاسۂ گردوں ہے ایک خاک انداز


فارغ مجھے نہ جان کہ مانندِ صبح و مہر
ہے داغِ عشق، زینتِ جیبِ کفن ہنوز

ہے نازِ مفلساں "زرِ ا ز دست رفتہ" پر
ہوں "گل فروِشِ شوخئ داغِ کہن" ہنوز

مے خانۂ جگر میں یہاں خاک بھی نہیں
خمیازہ کھینچے ہے بتِ بیدادِ فن ہنوز


کیوں کر اس بت سے رکھوں جان عزیز!
کیا نہیں ہے مجھے ایمان عزیز!

دل سے نکلا۔ پہ نہ نکلا دل سے
ہے ترے تیر کا پیکان عزیز

تاب لاتے ہی بنے گی غالب
واقعی سخت ہے اور جان عزیز


وسعتِ سعیِ کرم دیکھ کہ سر تا سرِ خاک
گزرے ہے آبلہ پا ابرِ گہربار ہنوز

یک قلم کاغذِ آتش زدہ ہے صفحۂ دشت
نقشِ پا میں ہے تپِ گرمئ رفتار ہنوز


گل کھلے غنچے چٹکنے لگے اور صبح ہوئی
سرخوشِ خواب ہے وہ نرگسِ مخمور ہنوز


نہ گل نغمہ ہوں نہ پردۂ ساز
میں ہوں اپنی شکست کی آواز

تو اور آرائشِ خمِ کاکل
میں اور اندیشہ ہاۓ دور دراز

لاف تمکیں، فریبِ سادہ دلی
ہم ہیں، اور راز ہاۓ سینہ گداز

ہوں گرفتارِ الفتِ صیّاد
ورنہ باقی ہے طاقتِ پرواز

وہ بھی دن ہو، کہ اس ستم گر سے
ناز کھینچوں، بجاۓ حسرتِ ناز

نہیں دل میں مرے وہ قطرۂ خون
جس سے مذگاں ہوئی نہ ہو گلباز

اے ترا غمزہ یک قلم انگیز
اے ترا ظلم سر بسر انداز

تو ہوا جلوہ گر، مبارک ہو!
ریزشِ سجدۂ جبینِ نیاز

مجھ کو پوچھا تو کچھ غضب نہ ہوا
میں غریب اور تو غریب نواز

اسد اللہ خاں تمام ہوا
اے دریغا وہ رندِ شاہد باز