دیکھا جو حسن یار طبیعت مچل گئی
دیکھا جو حسن یار طبیعت مچل گئی
آنکھوں کا تھا قصور چھری دل پہ چل گئی
ہم تم ملے نہ تھے تو جدائی کا تھا ملال
اب یہ ملال ہے کہ تمنا نکل گئی
ساقی تری شراب جو شیشے میں تھی پڑی
ساغر میں آ کے اور بھی سانچے میں ڈھل گئی
دشمن سے پھر گئی نگہ یار شکر ہے
اک پھانس تھی کہ دل سے ہمارے نکل گئی
پینے سے کر چکا تھا میں توبہ مگر جلیلؔ
بادل کا رنگ دیکھ کے نیت بدل گئی
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |