دیکھا جو مرگ تو مرنا زیاں نہ تھا

دیکھا جو مرگ تو مرنا زیاں نہ تھا
by انور دہلوی
303637دیکھا جو مرگ تو مرنا زیاں نہ تھاانور دہلوی

دیکھا جو مرگ تو مرنا زیاں نہ تھا
فانی کے بدلے ملک بقا کچھ گراں نہ تھا

شب کو بغل میں تھا بھی تو وہ دلستاں نہ تھا
شوخی یہ کہہ رہی تھی کہ یاں تھا وہاں نہ تھا

بے وجہ منہ چھپانے سے جو تھا نہاں نہ تھا
پر خیر تھی کچھ اس میں کہ میں بد گمان نہ تھا

یہ تو نہیں کہ اب کے وہ مطلق وہاں نہ تھا
لیکن سوال وصل یہ کہنے کو ہاں نہ تھا

وہ بت ہی کہوں زمیں پہ جو بلہ گراں نہ تھا
ہم سنگ لیکن اس کا مگر آسماں نہ تھا

حسرت کے صدقے آنکھ کے ملتے ہی کھل گیا
وہ کچھ کہ ممکنات سے جس کا بیاں نہ تھا

نالہ جو اپنا پایۂ تاثیر سے گرا
اتنا سبک ہوا کہ میں اتنا گراں نہ تھا

تھے بزم میں وہ غنچۂ افسردہ شرم سے
کیوں کر کہوں بہار میں رنگ خزاں نہ تھا

کیسی حیا کہاں کی وفا پاس خلق کیا
ہاں یہ سہی کہ آپ کو آنا یہاں نہ تھا

سب کام اپنی ایک نگہ پر ہیں منحصر
گویا مرے لیے تو بنا آسماں نہ تھا

کیوں مجھ پہ تیز کی نگہ قہر کی چھری
میں دور چرخ میں کوئی سنگ فساں نہ تھا

کچھ اپنے دل کے ولولے کچھ زاہدوں کی ضد
سر پھوڑنے کو ورنہ وہی آستاں نہ تھا

آئینہ کو وہ دیکھتے ہیں ان کی شکل ہم
تھا ہم کو وہ گماں کہ انہیں وہ گماں نہ تھا

انکار محض محض غلط میزباں سہی
مانا کہ بزم غیر میں تو میہماں نہ تھا

دشمن حریف راہ وفا ہے خدا کی شاں
وہاں جس پہ تھا یقین مجھے اس کا گماں نہ تھا

حیران ہوں حجاب جدائی اٹھا نہ کیوں
وہ نازنیں تھے میں تو کوئی ناتواں نہ تھا

اب آسماں بن کے مرا مدعی بنا
تھی لب پہ کچھ فغاں تو فلک کا نشاں نہ تھا

ٹپکا زمیں پہ گر فلک پیر کو تو کیا
پھر یہ کہیں گے سب کہ وہ کچھ نوجواں نہ تھا

کچھ جذب دل میں جان کے سمجھے تھے ان کو پاس
ایک وہم سے یقین پہ کیا کچھ گماں نہ تھا

گردوں سے آج ہے فلک ظلم پھٹ پڑا
سینہ میں آج ہی دم آتش فشاں نہ تھا

حسن جہاں فروز سے جس جا نہ تھے وہ بت
میں بے نشانیوں سے جہاں تھا وہاں نہ تھا

یوں خامشی سے خوش کہ وہ تصویر تھے مگر
یوں بات سے بتنگ کہ گویاں وہاں نہ تھا

بھاری ہوئے یہاں تو سبک ہوگی زندگی
وہاں تو نظر سے ہم کو گرانا گراں نہ تھا

تھے بے خودی میں پاس وہ ہوش آئی تو گئے
چوکے غضب ہی ہوش میں آنا یہاں نہ تھا

آنا یہ ان کا صبح کو میری اجل کے ساتھ
یعنی کہ نالۂ شب غم رائیگاں نہ تھا

تھا کچھ شکست دل سے مرا امتحان صبر
وہاں اپنی نازکی کا فقط امتحاں نہ تھا

بے مہر یوں نہ ہو کہ یہ خوش ہو کے میں کہوں
شاید کہ تو رقیب پہ بھی مہرباں نہ تھا

میں اور روز وصل عدو اور شب فراق
یہاں آسماں نہ تھا کہ وہاں آسماں نہ تھا

فرہاد کوہ کن تھا یہ اک ہلکی بات ہے
عاشق تھا بے ستوں کا اٹھانا گراں نہ تھا

شب مجھ سے آنکھ ملتی رہی دل رقیب سے
یہاں یوں ستم رہا کہ کسی پر عیاں نہ تھا

تھا دوستوں کا یار طریق اور دلوں سے دور
کیا تھا جو میں غبار پس کارواں نہ تھا

حیران ہوں کہ دم میں ترے کیونکہ آ گیا
میں ورنہ اپنے دل میں کہاں سے کہاں نہ تھا

مرتا ہوں کہ کیوں نہ رہا دل میں تیر یار
آرام جاں تھا کوئی آزار جاں نہ تھا

دیکھا نہ آنکھ اٹھا کے مجھے نازکی سے جھوٹ
ایسا تو کچھ نگاہ کا اٹھانا گراں نہ تھا

خالی در ان کا پایا تو دل وہم سے رکا
تھا پاسباں میں آپ جو وہاں پاسباں نہ تھا

کس بے دلی سے ہجر میں کی ہم نے زندگی
دل تھا کہاں کہ یہاں وہ بت دلستاں نہ تھا

مٹ جانا اپنا اس کا رہا سب کے دل پہ نقش
ایک یہ بھی تھا نشاں کہ مرا کچھ نشاں نہ تھا

کچھ وہم سد راہ ستم تھا کہ وقت ذبح
میرے گلو پہ خنجر قاتل رواں نہ تھا

انورؔ نے بدلے جان کے لی جنس درد دل
اور اس پہ ناز یہ کہ یہ سودا گراں نہ تھا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.