دیکھا جو کچھ جہاں میں کوئی دم یہ سب نہیں
دیکھا جو کچھ جہاں میں کوئی دم یہ سب نہیں
ٹک آنکھ موندتے ہی تم اور ہم یہ سب نہیں
تھوڑی سی زیست ہے جو خوشی سے نبھے تو خیر
ورنہ نشاط و خرمی و غم یہ سب نہیں
باغ و بہار و جوش گل و خندۂ صبوح
صوت ہزار و گریۂ شبنم یہ سب نہیں
دنیا و دین دیدۂ دل صبر اور قرار
تو ہی اگر نہیں تو اک عالم یہ سب نہیں
کس کام کے ہیں بے اثری سے اگرچہ ہیں
آہ و فغان و دیدۂ پر نم یہ سب نہیں
بے عشق جتنی خلق ہے انساں کی شکل میں
نظروں میں اہل دید کے آدم یہ سب نہیں
زخم نہان ہجر کو بے وصل اے محبؔ
ہو سود مند بخیہ و مرہم یہ سب نہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |