دیکھا نہ ہم نے رشک سے اغیار کی طرف
دیکھا نہ ہم نے رشک سے اغیار کی طرف
منہ پھیر بیٹھے بزم میں دیوار کی طرف
سیل سرشک اپنے ہی گھر میں بہائیں گے
کیوں جائے یہ بلا تری دیوار کی طرف
بیٹھے بٹھائے آئے جو شامت تو کیا علاج
دل نے کہا کہ آؤ چلیں یار کی طرف
چاہی تھی داد ہم نے دل صاف کی مگر
آئینہ ہو گیا ترے رخسار کی طرف
تصویر کو بھی اس کی یہاں تک غرور ہے
دیکھے کبھی نہ طالب دیدار کی طرف
تقصیر مے فروش کی اے محتسب نہیں
یہ چیز اڑ کے جاتی ہے مے خوار کی طرف
دی جان کس خوشی سے تہ تیغ داغؔ نے
لب پر تبسم اور نظر یار کی طرف
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |