دیکھا کبھو نہ اس دل ناشاد کی طرف
دیکھا کبھو نہ اس دل ناشاد کی طرف
کرتا رہا تو اپنی ہی بیداد کی طرف
جس گل نے سن کے نالۂ بلبل اڑا دیا
رکھتا ہے گوش کب مری فریاد کی طرف
موند اے پر شکستہ نہ چاک قفس کہ ہم
ٹک یاں کو دیکھ لیتے ہیں صیاد کی طرف
کہتے ہیں گریہ خانۂ دل کر چکا خراب
آتا ہے چشم اب تری بنیاد کی طرف
خسرو سے کچھ بگاڑ ہے شیریں کو ظاہرا
پیغام پھیر جاتے ہیں فرہاد کی طرف
لیجو خبر مرے بھی دل زار کی نسیم
جاوے اگر تو اس ستم آباد کی طرف
قائمؔ تو اس غزل کو یوں ہی سرسری ہی کہہ
ہونا پڑے گا حضرت استاد کی طرف
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |