دیکھتا کچھ ہوں دھیان میں کچھ ہے

دیکھتا کچھ ہوں دھیان میں کچھ ہے
by ولی اللہ محب

دیکھتا کچھ ہوں دھیان میں کچھ ہے
ہے یقیں کچھ گمان میں کچھ ہے

صنم اپنے کو ہم خدا جو کہیں
کب قصور اس کی شان میں کچھ ہے

کچھ نہ دیکھا کسی مکان میں ہم
کہتے ہیں لا مکان میں کچھ ہے

تشنۂ خوں ہیں لعل لب تیرے
سرخیٔ رنگ پان میں کچھ ہے

تیرے دیدار کی ہوس کے سوا
دیکھ تو میری جان میں کچھ ہے

تو جو تلوار کھینچے ہے مجھ پر
زخم بھی درمیان میں کچھ ہے

دیکھ تو اب جفا کشی کی تاب
مجھ دل ناتوان میں کچھ ہے

دیکھ کر مجھ کو نزع میں تو نے
نہ کہا اس جوان میں کچھ ہے

ہم کو پٹکا زمین کے اوپر
گردش آسمان میں کچھ ہے

فائدہ تجھ کو اے زخود غافل
فکر سود و زیان میں کچھ ہے

یہ زمانہ محبؔ بقول دردؔ
آن میں کچھ ہے آن میں کچھ ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse