دیکھنا جن صورتوں کا شکل تھی آرام کی

دیکھنا جن صورتوں کا شکل تھی آرام کی
by مرزا علی لطف

دیکھنا جن صورتوں کا شکل تھی آرام کی
ان سے ہیں مسدود راہیں نامہ و پیغام کی

رخصت اے اہل وطن اب ہم ہیں اور آوارگی
حق رکھے بنیاد قائم گردش ایام کی

یاد نے ان تنگ کوچوں کی فضا صحرا کی دیکھ
ہر قدم پر جان ماری ہے دل ناکام کی

گردش چشم بتاں کہ بسکہ ساغر نوش ہے
گردش گردوں کو ہم کہتے تھے گردش جام کی

جب سے کھینچا لطفؔ رنج فرقت یار و دیار
اب ہوئی معلوم محنت گردش ایام کی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse