دیکھوں تو کہاں تک وہ تلطف نہیں کرتا
دیکھوں تو کہاں تک وہ تلطف نہیں کرتا
آرے سے اگر چیرے تو میں اف نہیں کرتا
تم دیتے ہو تکلیف، مجھے ہوتی ہے راحت
سچ جانئے میں اس میں تکلف نہیں کرتا
سب باتیں انہیں کی ہیں یہ؟ سچ بولیو قاصد!
کچھ اپنی طرف سے تو تصرف نہیں کرتا؟
سو خوف کی ہو جائے، مگر رندِ نظر باز
دل جلوہ گہِ لانشف و شف نہیں کرتا
شوخی سے کسی طرح سے چین اس کو نہیں ہے
آتا ہے مگر آ کے توقف نہیں کرتا
اس شوخِ ستم گر سے پڑا ہے مجھے پالا
جو قتل کئے پر بھی تاسف نہیں کرتا
جو کچھ ہے انا میں وہ ٹپکتا ہے انا سے
کچھ آپ سے میں ذکرِ تصوف نہیں کرتا
تسکین ہو کیا وعدے سے، معشوق ہے آخر
ہر چند سنا ہے کہ تخلف نہیں کرتا
کیا حال تمہارا ہے ہمیں بھی تو بتاؤ
بے وجہ کوئی شیفتہ اُف اُف نہیں کرتا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |