دیکھو تو جان تم کوں مناتے ہیں کب سیتی
دیکھو تو جان تم کوں مناتے ہیں کب سیتی
بولو خدا کے واسطے ٹک لال لب سیتی
مکھڑا ترا ہے جان یہ اچرج ترا کا چاند
روزانہ اور خوب جھلکتا ہے شب سیتی
زلفاں کوں کہہ کہ دل کوں کریں آپ میں سیں دور
یہ پیچ و تاب ان کوں ہے اس کے تعب سیتی
دست سلام سر کے اوپر نقش پا ہے اب
ہر چند خاک راہ ہوا ہوں ادب سیتی
پانی میں ڈوب آگ میں جل کر مرو پہ ایک
عاشق نہ ہو پکار کے کہتا ہوں سب سیتی
ہرجائیو ہر ایک سیں لالچ نہیں ہے خوب
ہے بھیک مانگ کھانا بھلا اس کسب سیتی
باندھا ہے برگ تاک کا کیوں سر پے سیہرہ
کیا آبروؔ کا بیاہ ہے بنت العنب سیتی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |