دیکھو تو کس ادا سے رخ پر ہیں ڈالی زلفیں
دیکھو تو کس ادا سے رخ پر ہیں ڈالی زلفیں
جوں مار ڈستی ہیں دل دلبر کی کالی زلفیں
چاہے ہیں جس نہ تس کو باندھیں گرہ میں اپنی
دل لینے کو بلا ہیں یہ پیچ والی زلفیں
مثل سلاسل اس میں عقدے ہزارہا ہیں
ٹک پیچ و تاب سے میں دیکھیں نہ خالی زلفیں
مار سیہ جدا کب رہتا ہے گنج زر سے
ہوتی نہیں ہیں اس کے رخ سے نرالی زلفیں
تھی رات جو یکایک دن دیکھنے لگے سب
جب آفتابؔ اس نے رخ سے اٹھا لی زلفیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |