دیکھیں محشر میں ان سے کیا ٹھہرے

دیکھیں محشر میں ان سے کیا ٹھہرے
by آرزو لکھنوی

دیکھیں محشر میں ان سے کیا ٹھہرے
تھے وہی بت وہی خدا ٹھہرے

ٹھہرے اس در پہ یوں تو کیا ٹھہرے
بن کے زنجیر بے صدا ٹھہرے

سانس ٹھہرے تو دم ذرا ٹھہرے
تیز آندھی میں شمع کیا ٹھہرے

زندگانی ہے اک نفس کا شمار
بے ہوا یہ چراغ کیا ٹھہرے

جس کو تم لا دوا بتاتے تھے
تمہیں اس درد کی دوا ٹھہرے

عشق کا جرم سہل کام نہیں
کہ ہر اک لائق سزا ٹھہرے

بیم و امید کی کشاکش میں
اک دوراہے پہ جیسے آ ٹھہرے

روتی آنکھیں جھلک نہ دیکھ سکیں
بہتے زخموں پہ کیا دوا ٹھہرے

آرزوؔ وہ ہمیں نصیب کہاں
کان تک جا کے جو صدا ٹھہرے

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse