دیکھ تو بے رحم عاشق نیں تجھے چھوڑا نہیں
دیکھ تو بے رحم عاشق نیں تجھے چھوڑا نہیں
کس قدر بے روئیاں دیکھیں پہ منہ موڑا نہیں
ایک چسپاں ہے تجھی پر خوش نمائی کی قبا
دوسرا کوئی جامہ زیبوں میں ترا جوڑا نہیں
لٹ پٹے سج نیں ترے دل کوں کیا ہے لوٹ پوٹ
ورنہ عالم بیچ ٹک بندوں کا کچھ توڑا نہیں
دیکھنا شیریں کا اس کوں سخت لاگا سنگ میں
بے سبب فرہاد نیں پتھر سیں سر پھوڑا نہیں
آدمی درکار نہیں سرکار میں حیوان ڈھونڈھ
کون بوجھے یاں سپاہی کے تئیں گھوڑا نہیں
جیو نے مرنے میں حق اوپر توکل ہے اسے
آبروؔ نیں زخم کے کھانے میں ہاتھ اوڑا نہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |