دیکھ دروازے سے مجھ کو وہ پری رو ہٹ گئی
دیکھ دروازے سے مجھ کو وہ پری رو ہٹ گئی
دیکھتے ہی اس کے میری جان بس چٹ پٹ گئی
تم ادھر دھوتے رہے منہ ہم ادھر روتے رہے
روتے دھوتے دو گھڑی بارے مزے سے کٹ گئی
گرد کلفت بسکہ چھائی دل سے تا آنکھوں تلک
نہر تھی جاری جو آنکھوں کی مرے سو پٹ گئی
جی ادا نے زلف نے دل ہوش غمزوں نے لیا
جنس ہستی اپنی سب غارت میں آ کر بٹ گئی
پردے ہی پردے میں دل کو خاک کر ڈالا مرے
اس ادا سے وہ پری منہ پر لیے گھونگھٹ گئی
زلف گر چھدری ہوئی تیرے تو مت کھا پیچ و تاب
کیا ہوا از بس اٹھائے بوجھ دل کے لٹ گئی
کل جو میرا خوش نگہ گزرا چمن سے اے حسنؔ
موند لی بادام نے آنکھ اور نرگس کٹ گئی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |