دیکھ عقد ثریا ہمیں انگور کی سوجھی
دیکھ عقد ثریا ہمیں انگور کی سوجھی
کیوں بادہ کشاں ہم کو بھی کیا دور کی سوجھی
غش کھا کے گرا پہلے ہی شعلے کی جھلک سے
موسیٰ کو بھلا کہئے تو کیا طور کی سوجھی
ہم نے تو اسے دیکھ یہ جانا کہ پری ہے
پریوں نے جو دیکھا تو انہیں حور کی سوجھی
دیکھا جو نہانے میں وہ گورا بدن اس کا
بلور کی چوکی پہ جھلک نور کی سوجھی
سر پاؤں سے جب پھنس گئے اس زلف سیہ میں
جب ہم کو سیاہی شب دیجور کی سوجھی
جنت کے لئے شیخ جو کرتا ہے عبادت
کی غور جو خاطر میں تو مزدور کی سوجھی
مصنوع میں صانع نظر آوے تو نظیرؔ آہ
نزدیک کی پھر کیا ہے جہاں دور کی سوجھی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |