دیکھ لو شوق نا تمام مرا
دیکھ لو شوق نا تمام مرا
غیر لے جائے ہے پیام مرا
بے اثر ہے فغان خون آلود
کیوں نہ ہوئے خراب کام مرا
آتشیں خو سے آرزوئے وصال
پک گیا اب خیال خام مرا
دیکھنا کثرت بلا نوشی
کاسۂ آسماں ہے جام مرا
رتبہ افتادگی کا دیکھو ہے
عرش کے بھی پرے مقام مرا
کس صنم کو چھڑا دیا واعظ
لے خدا تجھ سے انتقام مرا
ہو کے یوسف جو دل چراتے ہو
کون ہو جائے گا غلام مرا
اس لب لعل کی شکایت ہے
کیونکہ رنگیں نہ ہو کلام مرا
تو نے رسوا کیا مجھے اب تک
کوئی بھی جانتا تھا نام مرا
زانوئے بت پہ جان دی دیکھا
مومنؔ انجام و اختتام مرا
بندگی کام آ رہی آخر
میں نہ کہتا تھا کیوں سلام مرا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |