دیکھ کر جوبن ترا کس کس کو حیرانی ہوئی

دیکھ کر جوبن ترا کس کس کو حیرانی ہوئی
by داغ دہلوی
295249دیکھ کر جوبن ترا کس کس کو حیرانی ہوئیداغ دہلوی

دیکھ کر جوبن ترا کس کس کو حیرانی ہوئی
اس جوانی پر جوانی آپ دیوانی ہوئی

پردے پردے میں محبت دشمن جانی ہوئی
یہ خدا کی مار کیا اے شوق پنہانی ہوئی

دل کا سودا کر کے ان سے کیا پشیمانی ہوئی
قدر اس کی پھر کہاں جس شے کی ارزانی ہوئی

میرے گھر اس شوخ کی دو دن سے مہمانی ہوئی
بیکسی کی آج کل کیا خانہ ویرانی ہوئی

ترک رسم و راہ پر افسوس ہے دونوں طرف
ہم سے نادانی ہوئی یا تم سے نادانی ہوئی

ابتدا سے انتہا تک حال ان سے کہہ تو دوں
فکر یہ ہے اور جو کہہ کر پشیمانی ہوئی

غم قیامت کا نہیں واعظ مجھے یہ فکر ہے
دین کب باقی رہا دنیا اگر فانی ہوئی

تم نہ شب کو آؤ گے یہ ہے یقیں آیا ہوا
تم نہ مانو گے مری یہ بات ہے مانی ہوئی

مجھ میں دم جب تک رہا مشکل میں تھے تیماردار
میری آسانی سے سب یاروں کی آسانی ہوئی

اس کو کیا کہتے ہیں اتنا ہی بڑھا شوق وصال
جس قدر مشہور ان کی پاک دامانی ہوئی

بزم سے اٹھنے کی غیرت بیٹھنے سے دل کو رشک
دیکھ کر غیروں کا مجمع کیا پریشانی ہوئی

دعویٰ تسخیر پر یہ اس پری وش نے کہا
آپ کا دل کیا ہوا مہر سلیمانی ہوئی

کھل گئیں زلفیں مگر اس شوخ مست ناز کی
جھومتی باد صبا پھرتی ہے مستانی ہوئی

میں سراپا سجدے کرتا اس کے در پر شوق سے
سر سے پا تک کیوں نہ پیشانی ہی پیشانی ہوئی

دل کی قلب ماہیت کا ہو اسے کیونکر یقیں
کب ہوا مٹی ہوئی ہے آگ کب پانی ہوئی

آتے ہی کہتے ہو اب گھر جائیں گے اچھی کہی
یہ مثل پوری یہاں من مانی گھر جانی ہوئی

عرصۂ محشر میں تجھ کو ڈھونڈ لاؤں تو سہی
کوئی چھپ سکتی ہے جو صورت ہو پہچانی ہوئی

دیکھ کر قاتل کا خالی ہاتھ بھی جی ڈر گیا
اس کی چین آستیں بھی چین پیشانی ہوئی

کھا کے دھوکا اس بت کمسن نے دامن میں لیے
اشک افشانی بھی میری گوہر افشانی ہوئی

بیکسی پر میری اپنی تیغ کی حسرت تو دیکھ
چشم جوہر بھی بشکل چشم حیرانی ہوئی

بیکسی پر داغؔ کی افسوس آتا ہے ہمیں
کس جگہ کس وقت اس کی خانہ ویرانی ہوئی


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.