دیکھ کر کرتے گلے میں سبز دھانی آپ کی

دیکھ کر کرتے گلے میں سبز دھانی آپ کی
by نظیر اکبر آبادی

دیکھ کر کرتے گلے میں سبز دھانی آپ کی
دھان کے بھی کھیت نے اب آن مانی آپ کی

کیا تعجب ہے اگر دیکھے تو مردہ جی اٹھے
چین نیفہ کی ڈھلک پیڑو پہ آنی آپ کی

ہم تو کیا ہیں دل فرشتوں کا بھی کافر چھین لے
ٹک جھلک دکھلا کے پھر انگیا چھپانی آپ کی

آ پڑی دو سو برس کے مردۂ بے جاں میں جان
جس کے اوپر دو گھڑی ہو مہربانی آپ کی

اک لپٹ کشتی کی ہم سے بھی تو کر دیکھو ذرا
ہاں بھلا ہم بھی تو جانیں پہلوانی آپ کی

چھلے غیروں پاس ہے وہ خاتم زر اے نگار
ہے ہمارے پاس بھی اب تک نشانی آپ کی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse