دیکھ کر یہ چلن تمہارے ہم
دیکھ کر یہ چلن تمہارے ہم
خاک میں مل گئے بے چارے ہم
جن ہیں یا دیو بھوت ہیں کیا ہیں
نہیں لگتے جو تم کو پیارے ہم
بے قراری سے دل کی شب کو ہائے
در پہ اس کے بہت پکارے ہم
یہ جو گلزار سا ہے رخ تیرا
لیں گے اس باغ کو اجارے ہم
داغ اک تحفہ لے کے ہستی میں
سوئے ملک عدم سدھارے ہم
رات محفل میں کان میں اس کے
کہہ کے کچھ ہو گئے کنارے ہم
منتظرؔ دل نے دکھ دیا یہ کہ بس
مر گئے درد و غم کے مارے ہم
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |