دیہاتی بولیاں ۲

دیہاتی بولیاں ۲ (1942)
by سعادت حسن منٹو
319942دیہاتی بولیاں ۲1942سعادت حسن منٹو

پنجاب کے چھوٹے چھوٹے دیہاتوں میں بنجاروں کی آمد بہت اہمیت رکھتی ہے۔ عورتیں عام طور پر اپنے سنگھار کا سامان انہی بنجاروں سے خریدتی ہیں۔ دیہاتی زندگی میں بنجارے کو اپنے پیشے اور اپنی چلتی پھرتی دکان کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے، چنانچہ دیہاتی گیتوں اور بولیوں میں اس کا ذکر عام ہے۔ چونکہ وہ ایک جگہ ٹک کر نہیں رہتا اس لئے اسے بے وفائی کی تجسیم بنا دیا گیا ہے۔ مجھے اس وقت کوئی ایسا گیت یاد نہیں آ رہا جس میں بنجارے کا ذکر ہو مگر چند بول میرے ذہن میں گونج رہے ہیں جو میں نے خدا معلوم کہاں اور کب سنے تھے،

او ونجارا، بھلا ونجارا۔۔۔ اور یار کوارا
ساڈے او ہان دا۔۔۔ ٹھگ ونجارا

مطلب، وہ بنجارا، وہ بھلا بنجارا۔۔۔ وہ ہمارا کنوارا یار ہمارا ہم عمر ہے وہ ٹھگ بنجارا۔۔۔ یہ شاید ایک کنواری لڑکی کے جذبات ہیں جس میں دوشیزہ محبت کے اتار چڑھاؤ بڑی پیاری لہروں کی صورت میں دکھائی دیتے ہیں۔

یہ بنجارے کانچ کی رنگ برنگ چوڑیاں بھی لاتے ہیں جو دیہات کی کنواریاں ہاتھوں ہاتھ لیتی ہیں۔ چوڑیاں چڑھانے میں یہ بنجارے بڑی مہارت رکھتے ہیں۔ چنانچہ پارے کی طرح مچلتی ہوئی کلائیوں میں بھی بڑی پھرتی سے کانچ کی کھنکھناتی ہوئی چوڑیاں یوں چٹکیوں میں چڑھا دیتے ہیں۔ وہ کس انداز سے دیہات کی نوجوان لڑکیوں کی انگلیاں چٹخاتے ہیں اور کس انداز سے ان کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں دباتے ہیں، اس کا تصور آپ خود کیجئے۔۔۔ میرے تصور میں وہ جوان لڑکی ہے جس نے نیلی چوڑیاں پہنی ہیں، اس کی سانولی بانہوں میں یہ چوڑیاں دیکھ کر آسمان بھی نکھر گیا ہے۔۔۔

لڑکی بڑے چاؤ سے بار بار اپنی چوڑیوں کو داد بھری نگاہوں سے دیکھتی جا رہی ہے۔ ادھر کھیتوں کی طرف جہاں کپاس اگ رہی ہے، ببولوں کے جھنڈ میں سے دفعتاً اس کا عاشق نکلتا ہے اور دونوں کی مڈ بھیڑ ہو جاتی ہے۔ جانے کیا بات ہے، دونوں ایک دوسرے سے کھنچے کھنچے نظر آتے ہیں۔ نوجوان اس کو سخت ہاتھوں سے پکڑنا چاہتا ہے، مگر وہ مچھلی کے مانند اس کی گرفت سے پھسل پھسل جاتی ہے۔ تھوڑی سی کشمکش کے بعد وہ کھلکھلا کر ہنستی ہے مگر فوراً ہی مصنوعی سنجیدگی اختیار کر کے کہتی ہے،

اساں نویاں چڑھایاں چوڑیاں
ہتھاں تے نہ ماریں ویریا

مطلب، ہم نے یہ چوڑیاں نئی نئی پہنی ہیں۔۔۔ دیکھو ہمارے ہاتھوں پر نہ مارنا۔

ہنسی مذاق ختم ہوتا ہے۔ لڑکی جس کا نام بنتو ہے، بار بار اپنی آنکھ ملتی ہے۔ اس کا چاہنے والا اس سے پوچھتا ہے، ’’کیا ہوا بنتو تیری آنکھ کو کیا ہو گیا ہے؟‘‘ وہ آنکھ مل کر کہتی ہے، ’’تنکا پڑ گیا ہے۔‘‘ اس پر حاسد عاشق کہتا ہے،

کہیڑے یار دا گتاوا کیتا اکھ وچ ککھ پے گیا۔

مطلب، تو نے کس یار کے لئے گائے بھینسوں کا چارہ تیار کیا ہے کہ تیری آنکھ میں تنکا پڑ گیا ہے۔

تھوڑی سی چھیڑ چھاڑ کے بعد میلے کی بات چیت ہوتی ہے۔ بنتو کا دوست بڑے ٹھاٹ سے بیساکھی کے میلے پر جا رہا ہے۔ گلے میں سونے کا یہ موٹا کنٹھا (زیور) پڑا ہے۔ قمیص دھاری دار کپڑے کی ہے، جس سے شہری شب خوابی کا لباس بناتے ہیں۔ ہاتھ میں نئی لاٹھی ہے جس کو تیل پلایا گیا ہے۔ چرچر کرتا جوتا ہے، بالکل نیا جس نے ابھی سے کاٹنا شروع کر دیا ہے۔ جب میلے جانے کے لئے سب لوگ نکلیں گے تو یہ جوتا اس کی لاٹھی سے بندھا ہوگا۔ اس کے پاس ایک چھاتا بھی ہے، جو گاؤں میں اور کسی کے پاس نہیں، ا س لئے وہ اسے ضرور ساتھ لے کر جائے گا۔ بارش نہیں تو کیا۔ شان تو بڑھ جائے گی۔ میلے کا سن کر بنتو کے منہ میں پانی آ جاتا ہے۔ وہ اس سے کہتی ہے،

میلے چلیاں تے لیا دیویں پہنچی
وے لے جا میرا گٹ من کے

مطلب، تو میلے پر جا رہا ہے تو میرے لئے ایک پہنچی ضرور لانا۔۔۔ لو میری کلائی کا ناپ لیتے جاؤ۔

ستانے کے لئے وہ انکار کر دیتا ہے۔ ہم تمہارے کیا ہوتے ہیں کہ تمہاری روز روز کی فرمائشیں پوری کرتے رہیں۔ نہیں ہم تمہارے لئے میلے سے کچھ نہیں لائیں گے۔ تھوڑی دیر چخ چخ ہوتی ہے، آخر بنتو ملامت آمیز لہجے میں تھک ہار کر اپنے دوست سے کہتی ہے،

میری اک نہ منی کمجاتا
تیریاں میں لکھ من دی

مطلب، کم ذات تو نے میری یہ ایک چھوٹی سی بات نہیں مانی اور میں تو تیری لاکھوں باتیں مانتی ہوں۔

اس پر ازراہِ مذاق بنتو کا دوست اس سے کہتا ہے، ’’کیوں۔۔۔؟‘‘ بس۔۔۔؟ یہ تو وہی ہوا۔۔۔

کچی یاری لڈواں دی
لڈو مک گئے یرانے ٹٹ گئے۔‘‘

مطلب، لڈؤوں کی دوستی (یعنی وہ دوستی جس میں چیزوں کا لین دین ہو) کچی ہوتی ہے۔۔۔ لڈو ختم ہو گئے اور دوستی بھی ختم ہو گئی۔

یہ سن کر بنتو کے احساس کو ٹھیس لگتی ہے۔ اس کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں اور ایک دم اس کے سینے سے آہ اٹھتی ہے وہ سوچتی ہے،

کی کھٹیا ای عشق گل لا کے
جندڑی نوں روگ لالیا

مطلب، عشق کو گلے لگا کر یعنی محبت کر کے تو نے کیا فائدہ حاصل کیا ہے۔ سوائے اس کے کہ اپنی جان کو ایک روگ لگایا ہے۔۔۔ عشق کرنے سے پہلے کیا اس کے کانوں نے بار بار نہیں سنا تھا۔۔۔

کتے ڈب نہ مری انجانا وے
عشقے دی نہر وگدی

مطلب، اے انجان تو کہیں ڈوب نہ مرے۔ تیرے آگے عشق کی نہر چل رہی ہے۔

اس کو یہ سب کچھ معلوم تھا، مگر پھر بھی وہ عشق میں گرفتار ہو گئی اور ہر وقت بن ٹھن کے رہنے لگی۔۔۔ ابھی تھوڑے ہی روز ہوئے اس نے محلے کے رنگریز سے کہا تھا،

چُنی رنگ دے للاریا میری
وے السی دے پھل ورگی

مطلب، اے رنگریز میرا دوپٹہ رنگ دے۔ ایسے رنگ میں جو السی کے پھول کی طرح ہو (السی کے پھول کا رنگ بہت خوبصورت ہوتا ہے۔ )

اور اس کا عشق کتنا صادق تھا۔ جس روز اس نے یہ سنا تھا کہ وہ بیمار ہے تو اس کو کتنا دکھ ہوا تھا اور جب چوتھے روز دھان کے کھیتوں میں بنتو کی اس سے ملاقات ہوئی تھی تو اس نے کہا تھا،

تیری میری اک جندڑی
تینوں تاپ چڑھے میں ہونگاں

مطلب، تیری میری اک جان ہے یعنی یک جان و دو قالب والا معاملہ ہے۔ تجھے بخار چڑھے تو میں ہنکارے بھرتی ہوں۔

سوچتے سوچتے وہ اپنے دوست کی طرف ملامت بھری نظروں سے دیکھتی ہے اور کہتی ہے، ’’کیا میں نے تم سے کہا نہیں تھا۔۔۔‘‘

میرا کالجا گنڈے دے چھل ورگا
ویکھیں یارا پاڑ نہ سٹیں

مطلب، میرا کلیجہ پیاز کے چھلکے کی طرح نازک ہے، دیکھنا کہیں اسے چھیڑ چھاڑ نہ دینا۔

یہ کہہ کر وہ بیری کے پاس بیٹھ کر زار و قطار رونا شروع کر دیتی ہے۔ اس کا عاشق جس نے صرف چھیڑنے کی خاطر اسے لڈؤوں کا طعنہ دیا تھا، سخت پریشان ہوتا ہے۔ اس کی سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کرے۔ وہ اس کو ہزار دلاسا دیتا ہے، مگر وہ روئے جاتی ہے۔ معافیاں مانگتا ہے مگر اس کے آنسو نہیں تھمتے۔ بھئی میں نے کیا کہا ہے جو تمہارے آنسو ہی بند نہیں ہوتے۔ کوئی مجھ سے خطا ہو گئی ہو تو معاف کر دو۔ لو اب چپ ہو جاؤ۔ غصے کو تھوک دو۔۔۔ حد ہو گئی ہے۔۔۔ ارے بھئی کچھ تو خیال کرو۔ کوئی یہاں آ نکلے تو کیا سمجھے۔۔۔ بس اب چپ ہو جاؤ۔۔۔ آخر ہوا کیا ہے؟ کچھ مجھے بھی تو پتا چلے۔ وہ روئے جاتی ہے اور اس بات پر اڑ جاتی ہے،

تیرے سامنے بیٹھ کے رونا
تے دکھ تینوں نہیوں دسنا

مطلب، تیرے سامنے بیٹھ کے روؤں گی پر یہ نہیں بتاؤں گی کہ مجھے دکھ کیا پہنچا ہے۔

عاشق کے لئے یہ کتنا بڑا دکھ ہے۔ بنتو سامنے بیٹھ کے روئے جا رہی ہے۔ پر یہ بتانے کے لئے تیار نہیں کہ اسے کیا دکھ پہنچا ہے۔ اس سے بڑھ کر روحانی سزا وہ اپنے عاشق کو اور کیا دے سکتی ہے۔ چند روز کے بعد یہ بات سارے گاؤں میں پھیل جاتی ہے کہ بنتو اور اس کے عاشق کا آپس میں بگاڑ پیدا ہو گیا ہے، چنانچہ طرح طرح کی باتیں سننے میں آتی ہیں۔ بات کا بتنگڑ بن جاتا ہے۔ لوگ بنتو کے عاشق کو طعنے دیتے ہیں، چنانچہ وہ بنتو کو مخاطب کر کے کہتا ہے،

کیہ کچئے تیری یاری
مہنا مہنا ہو کے ٹٹ گئی

مطلب، اے خام عورت (کچی یعنی وہ عورت جو عشق کرنے کے معاملے میں بالکل خام ہو۔) تیری دوستی بھی کیا تھی جو طعنہ طعنہ ہو کر ٹوٹ گئی۔

ایک روز بنتو نے اسے دور کٹے ہوئے درختوں کے پاس بیٹھے ہوئے دیکھا۔ اس کے دل میں ایک ہیجان سا برپا ہو گیا،

یاری توڑ کے کھنڈاں تے بے گیاں تے ہن توں کیہڑا رب ہو گیاں۔

مطلب، دوستی ختم کر کے تو مجھ سے دور کٹے ہوئے درختوں کی جڑوں پر بیٹھ گیا ہے، لیکن تو ایسا کرنے سے خدا تو نہیں ہو گیا۔

درختوں کی ٹنڈ منڈ جڑوں پر ایسے کئی خدا دیہاتوں میں بیٹھے رہتے ہیں جن کی خدائی آن کی آن میں اوندھی ہو جاتی ہے۔۔۔ آسمانوں والا خدا اوپر بیٹھ کر یہ تماشا دیکھتا رہتا ہے اور خاموش رہتا ہے۔


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.