دے حشر کے وعدے پہ اسے کون بھلا قرض
دے حشر کے وعدے پہ اسے کون بھلا قرض
تم لے کے نہ دیتے ہو کسی کا نہ دیا قرض
ہے دل میں اگر اس سے محبت کا ارادہ
لے لیجئے دشمن کے لئے ہم سے وفا قرض
عاشق کے ستانے میں دریغ ان کو نہ ہوگا
موجود ہیں لینے کو جو مل جائے جفا قرض
اس ہاتھ سے دو قول تو اس ہاتھ سے لو دل
دیتا ہے کوئی حشر کے وعدے یہ بھلا قرض
مانا کہ جفاؤں کی تلافی ہیں وفائیں
ہوگا نہ ظہیرؔ ان کی اداؤں کا ادا قرض
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |