دے چکے دل تو پھر اب دل پر اجارا کیسا
دے چکے دل تو پھر اب دل پر اجارا کیسا
ہم سمجھتے ہیں ہمارا ہے ہمارا کیسا
ہر ادا بانکی ہے ہر ناز سے پیارا کیسا
دل میں رکھ لیجئے انداز ہے سارا کیسا
سرخ پوشاک وہ پہنیں گے خدا خیر کرے
آج مریخ کا چمکے گا ستارا کیسا
مجھ کو یہ لطف کہ وہ شرط میں بوسے جیتے
ان کو یہ شرم کہ میں جیت میں ہارا کیسا
مردم چشم نے پلکوں سے بلائیں لے لیں
چشم بددور ہے وہ آنکھ کا تارا کیسا
میں لئے جاؤں شب وصل مکرر بوسے
تم کہے جاؤ کہ ہیں ہیں یہ دوبارا کیسا
دم نظارہ نظر باز تڑپ جاتے ہیں
شوخیٔ چشم سے ہے شوخ اشارہ کیسا
تجھ پہ مرتے ہیں ترے وعدوں پہ ہم جیتے ہیں
خالی باتوں کا بھی ہوتا ہے سہارا کیسا
صاف آغوش تمنا سے نکل جاتے ہو
وصل میں وصل سے کرتے ہو کنارا کیسا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |