ذرا سوچ کر اے جفا کرنے والے

ذرا سوچ کر اے جفا کرنے والے
by بیتاب عظیم آبادی

ذرا سوچ کر اے جفا کرنے والے
کہیں جی نہ چھوڑیں وفا کرنے والے

گلہ کچھ نہیں مجھ کو واعظ سے لیکن
یہ کون آپ کا تذکرہ کرنے والے

گھمنڈ ان کو اللہ رے اتنا جفا کا
تو کیا مر گئے اب وفا کرنے والے

بڑے بے مروت بڑے بے وفا ہو
ہمیشہ بہانہ نیا کرنے والے

گلی میں تری سر بکف ہو کے آئیں
کہاں ہیں مرا سامنا کرنے والے

وہ بے باک چتون یہی کہہ رہی ہے
کسی سے نہیں ہم وفا کرنے والے

شہیدان الفت نہ خوش ہوں تڑپ کر
وہ اس پر نہیں اعتنا کرنے والے

یہ کہتا ہے پروانے کا جل کے مرنا
وفا کرتے ہیں یوں وفا کرنے والے

سمجھتے ہیں آساں ابھی ان کا ملنا
بہت دور ہیں حوصلہ کرنے والے

نقاب ان کی جس وقت سرکے گی رخ سے
قیامت کریں گے حیا کرنے والے

دم نزع آخر نکل آئے آنسو
کہاں جا کے چوکے وفا کرنے والے

زباں پر مری راز دل اب تو آیا
مری شرم رکھ لے حیا کرنے والے

دوا سے تو بیمار کچھ اور الجھا
مرض ہی نہ سمجھے دوا کرنے والے

خموشی مری لاش کی کہہ رہی ہے
جفا سہتے ہیں یوں وفا کرنے والے

گدا کون بیتاب سا اس گلی میں
ہیں یوں تو بہت سے صدا کرنے والے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse