ذلت ہے جو پھیلائے بشر پیش دگر ہاتھ

ذلت ہے جو پھیلائے بشر پیش دگر ہاتھ
by دیا شنکر نسیم

ذلت ہے جو پھیلائے بشر پیش دگر ہاتھ
یا رب نہ کبھی ہاتھ کا ہو دست نگر ہاتھ

پنجہ کریں خورشید سے بیداروں کی پلکیں
فرقت کی شب آ جائے جو دامان سحر ہاتھ

ہیں صاحب سر پنجہ رئیسوں کو نچاتے
سر پر جو پڑے چوٹ تو ہوتا ہے سپر ہاتھ

جی میں ہے کہوں ان سے کہ ہوں دست گرفتہ
وہ سن کے خجل ہوں جو کہیں لاؤ ادھر ہاتھ

کیا دزد حنا ہاتھ لگا سیم بروں کو
دل ہاتھ سے لے جاتا ہے چوری سے وہ ہر ہاتھ

خورشید کے پنجے سے اشارہ ہے کہ عاقل
اللہ کی جانب کو اٹھا وقت سحر ہاتھ

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse