رات جب تک مرے پہلو میں وہ دل دار نہ تھا

رات جب تک مرے پہلو میں وہ دل دار نہ تھا
by شیخ قلندر بخش جرات
296701رات جب تک مرے پہلو میں وہ دل دار نہ تھاشیخ قلندر بخش جرات

رات جب تک مرے پہلو میں وہ دل دار نہ تھا
دل کو مجھ سے مجھے کچھ دل سے سروکار نہ تھا

گرد اس کوچے کے کس دن یہ گناہ گار نہ تھا
واے حسرت کہ کوئی رخنہ بہ دیوار نہ تھا

کل تو بیمار کو تھا تیرے نہ بستر پہ قرار
آج بستر تھا فقط اور وہ بیمار نہ تھا

شکر اے باد فنا جوں شجر سوختہ میں
تھا تو گلشن میں ولے قابل گل زار نہ تھا

نہیں تل دھرنے کی جاگہ جو بہ افزونیٔ حسن
دیکھا شب اس کو تو اک خال بہ رخسار نہ تھا

رات کیا بات تھی بتلا ترے صدقے جاؤں
آہیں بھرنا وہ ترا خالی از اسرار نہ تھا

دل کو دھر نوک سناں پر وہ یہ بولا ہنس کے
ہم نے منصور کو دیکھا بہ سر دار نہ تھا

بحث میں چشم تر و ابر کی کل تھا جو سماں
کبھی اس شکل سے رونے کا بندھا تار نہ تھا

ذبح ہم سامنے ہوتے ہی ہوئے قاتل کے
باوجودیکہ کوئی ہاتھ میں ہتھیار نہ تھا

بعد مردن مرے تابوت پہ سب روتے تھے
چشم پر آب مگر اک وہ ستم گار نہ تھا

لیک کیا منہ کو چھپاتا تھا جو کہتے تھے یہ لوگ
اس کو ظاہر میں تو مرنے کا کچھ آزار نہ تھا

طبع کہہ اور غزل، ہے یہ نظیریؔ کا جواب
ریختہ یہ جو پڑھا قابل اظہار نہ تھا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.