رات کیا کیا مجھے ملال نہ تھا
رات کیا کیا مجھے ملال نہ تھا
خواب کا تو کہیں خیال نہ تھا
آج کیا جانے کیا ہوا ہم کو
کل بھی ایسا تو جی نڈھال نہ تھا
بولے سب دیکھ میری جاں کاوی
یہ تو فرہاد کا بھی حال نہ تھا
جب تلک ہم نہ چاہتے تھے تجھے
تب تک ایسا ترا جمال نہ تھا
اب تو دل لگ گیا ہے کیوں کہ نہ آئیں
پہلے کہتے تو کچھ محال نہ تھا
ٹل گیا دیکھ یوں ترا ابرو
کہ گویا چرخ پر ہلال نہ تھا
ٹک نہ ٹھہرا مرے وہ پاس آ کر
کچھ تماشا تھا یہ وصال نہ تھا
دیکھ شب اپنے رشک لیلیٰ کو
دنگ تھا میں تو مجھ میں حال نہ تھا
سن کے بولا تمام قصۂ قیس
عشق کا اس کو بھی کمال نہ تھا
اتنا رویا لہو تو کب جرأتؔ
ابھی دامن ترا تو لال نہ تھا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |