راز جو سینۂ فطرت میں نہاں ہوتا ہے

راز جو سینۂ فطرت میں نہاں ہوتا ہے
by جگر مراد آبادی

راز جو سینۂ فطرت میں نہاں ہوتا ہے
سب سے پہلے دل شاعر پہ عیاں ہوتا ہے

سخت خوں ریز جب آشوب جہاں ہوتا ہے
نہیں معلوم یہ انسان کہاں ہوتا ہے

جب کوئی حادثۂ کون و مکاں ہوتا ہے
ذرہ ذرہ میری جانب نگراں ہوتا ہے

جو نظر کردۂ صاحب نظراں ہوتا ہے
اسی دیوانے کے قدموں پہ جہاں ہوتا ہے

جب کوئی عشق میں برباد جہاں ہوتا ہے
مجھ کو محسوس خود اپنا ہی زیاں ہوتا ہے

متزلزل ہے ادب گاہ محبت کی زمیں
کوئی دیکھے تو یہ ہنگامہ کہاں ہوتا ہے

کہیں ایسا تو نہیں وہ بھی ہو کوئی آزار
تجھ کو جس چیز پہ راحت کا گماں ہوتا ہے

دل غنی ہو تو ہر اک رنج بھی دل کی راحت
ذہن مفلس ہو تو ہر سود زیاں ہوتا ہے

امتحاں گاہ محبت میں نہ رکھے وہ قدم
موت کے نام سے جس کو خفقاں ہوتا ہے

یہی وہ منزل دشوار ہے جس منزل میں
ختم ہر مرحلۂ سود و زیاں ہوتا ہے

ہر قدم معرکۂ کرب و بلا ہے درپیش
ہر نفس سانحۂ مرگ جواں ہوتا ہے

ناز جس خاک وطن پر تھا مجھے آہ جگرؔ
اسی جنت پہ جہنم کا گماں ہوتا ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse