راس آیا ہے مجھے وحشت میں مر جانا مرا
راس آیا ہے مجھے وحشت میں مر جانا مرا
وہ مجھے روئے یہ کہہ کر ہائے دیوانا مرا
غیر کو ساقی نے جب بھر کر دیا جام شراب
آنسوؤں سے ہو گیا لبریز پیمانا مرا
میرے رونے پر وہ ان کا مسکرانا بار بار
اور بلائیں لے کے وہ قدموں پہ گر جانا مرا
حضرت ناصح کی باتیں میں سمجھتا ہی نہیں
نا سمجھ ہیں دل لگی سمجھے ہیں سمجھانا مرا
اے رساؔ وہ بھی شریک محفل ماتم ہوئے
خضر بھی مرتے ہیں جس پر وہ ہے مر جانا مرا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |