راہنما بن جاؤں

راہنما بن جاؤں
by افسر میرٹھی

درد جس دل میں ہو اس دل کی دوا بن جاؤں
کوئی بیمار اگر ہو تو شفا بن جاؤں
دکھ میں ہلتے ہوئے لب کی میں دعا بن جاؤں
اف وہ آنکھیں کہ ہیں بینائی سے محروم کہیں
روشنی جن میں نہیں نور جن آنکھوں میں نہیں
میں ان آنکھوں کے لیے نور ضیا بن جاؤں
ہائے وہ دل جو تڑپتا ہوا گھر سے نکلے
اف وہ آنسو جو کسی دیدۂ تر سے نکلے
میں اس آنسو کے سکھانے کو ہوا بن جاؤں
دور منزل سے اگر راہ میں تھک جائے کوئی
جب مسافر کہیں رستے سے بھٹک جائے کوئی
خضر کا کام کروں راہنما بن جاؤں
عمر کے بوجھ سے جو لوگ دبے جاتے ہیں
ناتوانی سے جو ہر روز جھکے جاتے ہیں
ان ضعیفوں کے سہارے کو عصا بن جاؤں
خدمت خلق کا ہر سمت میں چرچا کر دوں
مادر ہند کو جنت کا نمونہ کر دوں
گھر کرے دل میں جو افسرؔ وہ صدا بن جاؤں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse