راہ میں صورت نقش کف پا رہتا ہوں
راہ میں صورت نقش کف پا رہتا ہوں
ہر گھڑی بننے بگڑنے کو پڑا رہتا ہوں
عمر رفتہ نہ کبھی آئے منانے کے لئے
مدتیں گزریں کہ جینے سے خفا رہتا ہوں
صفت کینہ مرا گھر ہے فلک کے دل میں
گرہ دشمن خاطر میں بندھا رہتا ہوں
فتنۂ حشر یہ کہتا ہے مجھے پوچھے کون
دامن یار کے گوشہ میں پڑا رہتا ہوں
قید ہوں پر ستم غفلت جوہر سے منیرؔ
غصہ بن کر دل زنداں میں بھرا رہتا ہوں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |