راہ کر کے اس بت گمراہ نے دھوکا دیا
راہ کر کے اس بت گمراہ نے دھوکا دیا
گر پڑے اندھے کنوئیں میں چاہ نے دھوکا دیا
ہو گئے مغرور مجھ کو عاشق اپنا جان کر
ہائے اس دل کا برا ہو آہ نے دھوکا دیا
جان کر اس بت کا گھر کعبہ کو سجدہ کر لیا
اے برہمن مجھ کو بیت اللہ نے دھوکا دیا
میں نے جانا بال منہ پر کھول کر آئے حضور
چھپ کر ابر تر میں قرص ماہ نے دھوکا دیا
شیح صاحب آپ کو بت خانے میں لایا منیرؔ
پیر و مرشد بندۂ درگاہ نے دھوکا دیا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |